en-USur-PK
  |  
17

مسیح عہد عتیق میں

posted on
مسیح عہد عتیق میں

Jesus in the Old Testament

Rev. Mawlawi Dr. Imad ud-din Lahiz 

(1830−1900)

مسیح عہد عتیق میں

علامہ مولوی پادری ڈاکٹر عماد الدین لاہز        

                   

          گذشتہ لیکچر میں یہ بتلایا گیا کہ پرانا عہد نامہ پیغمبروں  کےذ ریعہ  یوں بتلاتا ہے کہ  آنے والا  زمانہ  میں ایک شخص  ظاہر ہونے والا ہے  جو اپنی قربانی کے وسیلہ سے سارے جہان کے لئے  نجات تیار کرےگا اور نیز یہ بیان ہوا کہ  اس زمانہ کے لوگ اس شخص  کی طرف  تاکتے تھے جیسے  اب ہم  ا س کی طرف  تاکتے ہیں  پس ہماری اور ان کی مطمع نظر ایک ہی شخص ہے  آج ہم اس کاامر کا بیان کرینگے  کہ وہ لوگ کس اعتقاد سے اس کی طرف  تاکتے تھے او رہم کس اعتقاد سے اس کی طرف  دیکھتے ہیں ۔

          ہمارا  جو اعتقاد ہے وہ سب لوگوں کو معلوم ہے کہ عیسی ٰابن مریم  کامل خدا اور کامل انسان ہے اور وہ اپنے کفارہ  اور جی اٹھنے سے ہمیں  نجات دیتا ہے ۔ او رہمارے اس اعتقاد کی بنیاد انجیل جلیل  کی تعلیم پر قائم ہے۔

          مگر اس وقت اس بیان کی ضرورت ہے کہ اس زمانہ کے لوگوں  کا مسیح کی نسبت کیا اعتقاد تھا نجات  کے اعتبار سے  وہ تو جیسا کہ  بیان ہوا مسیح ہی کو اپنا نجات دہندہ  سمجھتے تھے  مگر ان کا یہ عقیدہ  کہ مسیح کون ہے او رکیا ہے ذیل کے اقتباسات  سے واضح ہوتاہے ۔

          اگرچہ مسیح کی ذات وصفات اور کاموں اور واقعات کا بیان پرانے عہد نامہ کی اکثر عبارتوں کےد رمیان صاف صاف اسی طرح بیان ہوا ہے جس طرح انجیل میں ہوا ہے ۔ مگر اس مسیح کی کیفیت خدا نے جو ہمہ دان ہے اگلی امت پراس کے القاب میں بخوبی ظاہر کردی تھی اورالقاب کا طریقہ  اس لئے اختیار کیا گیاتھا کہ  القاب چھوٹے چھوٹے  لفظ ہوتے ہیں  جن کو سب لوگ بآسانی یاد رکھ سکتے ہیں۔ خدا چاہتا ہے کہ  واقعات  عظیمہ  کے وقوع سے پیشتر  اور اس کی ذات  اقدس کے ظہور سے پہلے اس کی ضروری کیفیت  کے اصولی مضامین چھوٹے چھوٹے  الفاظ  کے القاب  میں لوگوں کے دلوں پر بطور عقیدہ  نقش کا لحجر  کردے ۔تاکہ ان عقائد  کے سبب سے وہ ہلاکت  ابدی سے بچیں۔ اور وہ جو ظہور کے بعد پیدا ہونگے اپنے اسلاف  کے ان عقائد  کو دیکھ کر  ایمان میں زیادہ مضبوطی حاصل کریں۔

اب ہم ان القاب پر عور کرینگے  جو منجی کی نسبت عہد عتیق  میں مذکور ہیں

          پہلا لقب آنے والا المسیح ہے (دانیال رکوع 9 آیت 25)۔ مسیح اور المسیح میں بڑا فرق ہے ۔ بادشاہ اور کاہن اور نبی تیل سے مسح کئے جاتے تھے اور مسیح کہلاتے تھے ۔ مگر المسیح  وہ خاص مسیح ہے جس کے وہ سب نمونے تھے اور تینوں عہدے اس میں مکمل ہوجاتے ہیں۔

          دانیال رکوع 9 آیت 25 "اور اس پر جو سب سے زیادہ قدوس ہے مسح کیا جائے گا۔(زبور شریف رکوع 45 آیت 6و7)۔ "تیرا تخت  اے خدا  ابدالاباد ہے تیری سلطنت  کا عصا راستی کا عصا ہے تو صداقت کا دوست اور شرارت کا دشمن ہے ۔ اس سبب سے  خدا تیرے  خدا نے تجھ کو خوشی  کے تیل  سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ مسح کیا۔"

          (بائبل مقدس صحیفہ حضرت ذکریا رکوع 3 آیت 8)" اب اے یہو شوع سردار کاہن سن تو اور تیرے رفیق  جو تیرے آگے بیٹھے ہیں کیونکہ  یہ اشخاص  بطور نشانی کے ہیں کہ دیکھ میں اپنے بندے شاخ نامی کو پیش لاؤنگا۔"

          یہاں  سے صاف ظاہر ہے کہ المسیح آنے والا ہے مگر انجیل  بتلاتی ہے کہ جب المسیح آیا اور 30برس کا ہوکر ممسوح ہونے کو  یردن ندی پر یوحنا کے سامنے گیا تو خدا نے آپ اسے روح القدس  سے ممسوح کیا اور کبوتر  کی شکل میں اس پر روح القدس نازل ہوئی  اور آواز  آئی کہ  یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میرا دل خوش ہے ۔

          پھر اس شخص کی زندگی کے واقعات  اور وہ سب معجزات جو اس سے ظاہر ہوئے  بخوبی ثابت کرتے ہیں کہ  یہ المسیح ہے ۔

       دوسرا لقب  الملک ہے ۔ وہ ایک خاص بادشا ہ ہے سلطانوں  کا سلطان خداوندوں کا خداوند۔" اور ان بادشاہوں کے ایام میں آسمان کا خدا ایک سلطنت  برپا کرے گا جو تا ابد نیست نہ ہوگی اور وہ سلطنت  دوسری قوم کے قبضہ میں نہ پڑیگی وہ ان سب مملکتوں کوٹکڑے ٹکڑے اور نیست کریگی اور وہی  تا ابد قائم رہیگی۔" ( دانیال رکوع 2 آیت 44)۔

          (صحیفہ حضرت ذکریا رکوع 9 آیت 9)۔ "دیکھ تیرا بادشاہ  تجھ پاس آتا ہے وہ صادق ہے اور نجات  دینا اس کےذمہ میں ہے وہ فروتن ہے اور گدھے پر بلکہ  جو ان گدھے پر ہاں گدھے کے بچہ پرسوار ہے ۔" پرانے عہد نامہ میں اس بادشاہ کےذکر میں بہت کچھ لکھا ہے ۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ  وہ روحانی وجسمانی دونوں طرح سے بادشاہ ہوگا اور یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ یہودی  جانتے تھے کہ وہ بادشاہ جو آنے والا ہے وہی المسیح ہے ۔

          چنانچہ جب مسیح پیدا ہوئے اور نجومی آئے تو انہوں نے کہا کہ یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے کہاں ہے ؟ تب فوراً ہیردویس  نے کہا  کہ مسیح کہاں پیدا ہوگا کیونکہ  وہ جانتا تھا کہ  آنے والا بادشاہ  مسیح ہے۔ اور علمائے یہود  نے یہی جواب دیاکہ  کہ (صحیفہ حضرت میکا ہ رکوع 5 آیت 2)۔ "اے  بیت لحم  افراتہ ہر چند کہ تو یہودا کے ہزاروں  میں شامل ہونے کے لئے چھوٹا ہے تو بھی تجھ میں سے  وہ شخص  نکل کے مجھ پاس آئے گا جو اسرائیل  میں حاکم ہوگا اور اس کا نکلنا  قدیم سے ایام الازل سے ہے۔ قس پر بھی وہ انہیں چھوڑدیگا اس وقت تک کہ وہ جو جننے کا درد  کھانے پر ہے جن چکے تب اس کے باقی  بھائی  بنی اسرائيل  کے پاس پھرآئینگے ۔(صحیفہ حضرت میکا ہ رکوع 5 آیت 2و4)۔

          چونکہ یہ حقیقی بادشاہ ہے اس لئے اس کی بادشاہت  کاشروع  انسان کے دل میں ہوتا ہے اس لئے اس کے نقیب  یوحنا نے توبہ کی منادی  کی کہ " توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہت  نزدیک ہے۔" اس بادشاہ کی رعیت  بننے کے لئے  دل کی تیاری  ضروری ہے تاکہ خوشی کے ساتھ اطاعت کی جائے اور روحانیت جسمانیت  پر غالب آجائے ۔ یہاں تک کہ سب کچھ نیاہوجائے اسی بادشاہ کے انتظام سے جہان کامل ہوگاکیونکہ  اس کا تعلق  دل سے ہے۔ اور اس کا سب سامان روحانی ہے ۔

          تیسرا لقب خداوند کا بازو ہے ۔(صحیفہ حضرت یسعیاہ رکوع 51 آیت 9)۔ یہ لقب  اس کی قوت اور قدرت کو ظاہر کرتاہے کہ اس میں کس قسم کی طاقت ہوگی۔

          سیدنا مسیح کے واقعات  صاف گواہی دیتے ہیں کہ  وہ خدا کا بازو تھا۔ انسانوں اور فرشتوں اور تمام موجودات میں جو طاقت دیکھی جاتی ہے  ان سب سے نرالی  طاقت  مسیح میں ظاہر ہوئی ہے ۔

          مسیح کی نجات  دہندہ  طاقت سے ہر ملک کے عارف لوگ جان سکتے ہیں کہ خدا کا بازو  ہماری مدد  پر ہے اس کی قدرت سے جو  روحوں پر اور انسانی خیالات  پر اور دریاؤں پر اور ہواؤں پر ظاہر ہوئی  صاف ثابت ہوتاہے کہ وہ خدا کا بازو ہے۔

          اس کی قدرت  جو اپنی جماعت کے بڑھانے  اور پھیلانے میں اور مدد کرنے میں دیکھی جاتی ہے  صاف گواہی دیتی ہے کہ وہ خدا کا بازو ہے۔

          چوتھا لقب عجیب ، مشیر ، خدا قادر ابدیت کاباپ سلامتی کا شہزادہ ہے (صحیفہ حضرت یسعیاہ رکوع 9 آیت 6)۔ فی الحقیقت  یہ سارے اوصاف  سیدنا مسیح میں پائے جاتے ہیں اور ان پانچوں لفظوں کے مفہوم کامل طو پر  اسی شخص  میں چسپاں ہوتےہیں (عجیب ) اس کی پیدائش  سے صعود تک عجیب باتیں  اس میں دیکھی گئیں  اور آج تک عجیب بھید اس سے ظاہر ہوتے ہیں۔

          (مشیر ) وہ آدمیوں کو عمدہ صلاح دیتا ہے ایسی صلاح دینے والا  ایک بھی جہان میں نظر نہیں آتا۔ وہ خدا باپ کے ساتھ ازل سے مشیر تھا۔

          (خدائے  قادر )ظاہر ہے کہ اس میں کامل الوہیت تھی۔

          (ابدیت کا باپ) وہ تو مردوں میں سے جی اٹھا اور ابد تک زندہ ہے ۔

          (سلامتی کاشہزادہ ) وہ خدا کا بیٹا  ہماری سلامتی  کا باعث ہے ۔

          پانچواں لقب ساری قوموں کی آرزوہے ( پیدائش رکوع 49 آیت 10 اور صحیفہ حضرت حجی رکوع 2 آیت 7)۔ نہ صرف یہودیوں کی آرزو ہے اور ایک وقت ایسا آنے والا ہے کہ سب جانینگے کہ وہی ہماری آرزو ہے۔

          چھٹا لقب حکمت ہے (امثال رکوع 8 آیت 12)۔ یہ مضمون ایسی خوبی کے ساتھ سیدنا مسیح میں پایا جاتا ہے جس کا کوئی آدمی انکار نہیں کرسکتا کیونکہ سیدنا مسیح کی تعلیم سے سارے جہان کے عقلا حیران ہیں اور ہر دانائی  اس کی صفائی کے سامنے  ماند ہے ۔ چنانچہ  نہ اس وقت کوئی دانائی اس کا مقابلہ کرسکی اور نہ آج تک  کوئی دانا اس سے بہتر تعلیم دے سکا۔

          ساتواں لقب  خداوند خدا ہے (صحیفہ حضرت یسعیاہ رکوع 4 آیت 10)۔ "دیکھو خداوند خدازبردستی کے ساتھ آئيگا۔ " آیت 5 میں ہے کہ " خداوند کا جلال آشکارا ہوگا۔"

          ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا کو جن صفتوں کے ساتھ عقل نے دریافت کیاہے وہ سب صفتیں  اس شخص  میں پائی جاتی ہیں  اگر یہ شخص  خدانہ تھا تو پھر  کون خدا ہے  جس کی ہم امید کریں ؟ جتنی صفات ہم خدا میں تسلیم کرتے ہیں وہ سب مسیح میں موجود ہیں پھر کیوں  ہم نہ یہ کہیں کہ وہ خدا ہے ؟

          آٹھواں لقب خداوند ہماری صداقت ہے (یرمیاہ رکوع 23 آیت 6)۔ اس کا نام یہ رکھا جائیگا کہ خداوند ہماری صداقت ۔" سارے مسیحی دین کا حاصل یہ ہے کہ  مسیح ہماری وہ نیکی ہے جس کو ہم خدا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں  ہم صرف مسیح کے طفیل سے بچینگے نہ اپنے نیک اعمال کی وجہ سے چنانچہ مسیح کے سوا اور کسی نے اس امر کا مدلل دعویٰ نہیں کیا ہے۔

          نواں لقب اس کا اعمانویل ہے۔(یسعیاہ رکوع 7 آیت 4)۔ یعنی خدا آدمیوں کےد رمیان آگیا ہے۔

          سیدنا مسیح جو مجسم خدا ہے یہ اس کی ذات کا بیان ہے جس کا ثبوت اس کی عصمت  قدرت علم حکمت اور سارے واقعات دیتے ہیں۔

          دسواں لقب  ہمتائی خدا ہے (ذکریا رکوع 13 آیت 7)۔ یعنی ایک انسان ہے جو خدا ہے۔ اسی طرح شاخ داؤد کی اصل، داؤد کی نسل اسرائیل کا قدوس خدا کا فرشتہ عہد کا رسول شریعت کادہندہ شاہد ستارہ شیلوہ خلق کا پیشوا اور آفتاب صداقت وغیرہ  اس کے القاب ہیں اور ان القاب کے مفہومات صرف اسی شخص سیدنا مسیح میں ادا ہوجاتے ہیں۔ ہمارا جو کچھ  اعتقاد مسیح پرہے  وہی اعتقاد ہے جو اگلوں پیغمبروں کا اور ان کی امت  کا تھا صرف اتنا فرق ہے کہ وہ کہتے تھے کہ  ایک ایسا شخص آنے والا ہے  اورہم کہتے ہیں کہ وہ آگیا پس بھايئوں  یہ بے فکری  کا وقت  نہیں ہے۔ سیدنا مسیح کے متعلق  دیانتداری  کے ساتھ غور کرو اور اسی کو مدنظر رکھو تب تمہیں  خدا شناسی کی مقددرت حاصل ہوجائیگی۔

فقط

والسلام عماد الدین لاہز

 

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا | Tags: | Comments (0) | View Count: (17831)
Comment function is not open
English Blog