en-USur-PK
  |  
30

یروشلیم میں بیت حسدا پر ایک پژمردہ شخص کو شفا بخشنا

posted on
یروشلیم میں بیت حسدا پر ایک پژمردہ شخص کو شفا بخشنا

THE MIRACLES OF CHRIST

معجزاتِ مسیح

14-Miracle   

Jesus Heals the Man at the Pool of Bethesda

            John 5:1-17        

 

 

یروشلیم میں بیت حسدا پر ایک پژمردہ شخص کو شفا بخشنا

۱۴ ۔معجزہ

انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا ۵باب ۱تا ۱۷آیت

مرحوم علامہ طالب الدین صاحب بی ۔ اے

؁ ۱۹۰۵ء

اس کے بعد یہودیوں کی ایک عید ہوئی اورجنابِ مسیح یروشلم تشریف لے گئے۔یروشلم میں بھیڑ دروازہ کے پاس ایک حوض ہے جو عبرانی زبان میں بیت حسدا کہلاتا اور پانچ برآمدوں سے گھرا ہوا ہے ۔ ان بر آمدوں میں بہت سے اپاہج جو اندھے ،لنگڑے اور مفلوج تھے پڑے پڑے پانی کے ہلنے کا انتظار کرتے تھے کیونکہ پروردگار کا فرشتہ کسی وقت نیچے اترکر پانی ہلاتا تھا اورپانی کے ہلتے ہی جو کوئی پہلے حوض میں اتر جاتا تھا وہ تندرست ہوجاتا تھا خواہ وہ کسی بھی مرض کا شکار ہو۔

آیت نمبر ۵۔ وہاں ایک ایسا آدمی پڑا ہوا تھا جو اڑتیس بر س سے اپاہج تھا۔

اس آیت میں اڑتیس سال کاذکر ہے ۔ اس عرصہ سے یہ مراد ہے کہ اسکی عمر کل اڑتیس سال کی تھی اور نہ یہ کہ وہ اڑتیس سال سے اس حوض کے کنارے پر بیٹھا حرکتِ آب کی انتظاری کرتا تھا گو اس کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مدت سے وہاں بیٹھا ہوا تھا۔ اصل مطلب یہ ہے کہ وہ عرصہ اڑتیس سال سے بیماری کے پنجہ میں گرفتار تھا۔ لفظی ترجمہ ہے جس نے "اڑتیس سال بیماری میں گزارے تھے ۔"بعض اشخاص جوہر بات سے کوئی نہ کوئی علامتی نکالنے کی کوششیں کرتے ہیں وہ اڑتیس سال سے بنی اسرائیل کی آوارگی مراد لیتے تھے۔ اور بیماری سے مسیح کے آنے تک یہودی کلیسیا کی بے امید حالت اور بیت حسدا سے پرانا عہد نامہ مراد لیتے ہیں۔ جس سے محدود برکت ملتی تھی ۔ یعنی صرف کوئی کوئی اچھا ہوتا تھا۔ مسیح کے شفا بخشنے سے انجیلی برکتوں کا زمانہ مرا د لیتے ہیں۔ یہ خیال دین دار انہ تو ہیں مگر کوئی بنیاد ان کے لئے اس بیان سے نہیں ملتی۔

آیت نمبر ۶۔اس کو جناب ِ مسیح نےپڑا ہوا دیکھا۔۔۔۔۔۔اس سے کہا کیا تو تندرست ہونا چاہتا ہے ؟

کیا تو تندرست ہونا چاہتا ہے۔ ؟؟بادی النظر میں یہ سوال بالکل فضول سا معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ کوئی شخص ایسا نہیں جو اپنی بیماری سے تندرست ہونا نہ چاہتا ہو۔ علاوہ بریں اس مریض کا اس حوض پر حاضر ہونا ہی ثابت کرتاہے کہ وہ تندرست ہونا چاہتا تھا۔ تاہم مسیح کا یہ سوال کوئی معنی رکھتا ہے۔ یہ شخص اتنی مدت سے یہاں موجود تھا پر کوئی اس کی مدد نہیں کرتا تھا۔ لہذا وہ بالکل مایوس بیٹھا تھا۔ اس کےدکھ اور لوگوں کی بے پروائی نے اس کے نخل امید کو پژمردہ کردیا تھا پس مسیح کا یہ سوال یہ مطلب رکھتا تھا کہ اس کے دل میں امید کا خیال تازہ ہو۔ اور وہ جانے کہ وہ شخص جومجھ سے ہم کلام ہورہا ہے میرے لئے فکر مند ہے۔ مجھ کو پیار کرتا ہے۔ اور یوں اس کی محبت کومحسوس کرکے ایک قدم اور آگے بڑھنے اور اس کی قدرت کا بھی معتقد ہوجائے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ مسیح پہلے اس شخص کو ایمان کی برکت عطا فرماتے ہیں جو دوسری برکتوں کے حصول کے لئے اشد ضروری ہے ۔

اس سوال کا یہ مطلب نہیں جیسا بعض نے خیال کیا ہے کہ مسیح یہ کہتے ہیں کہ آج سبت ہے پر کیا تم سبت کے روز اچھا ہونا چاہتےہو؟

ی        ہ بات قابل غور ہے کہ انجیل شریف بہ مطابق یوحنا میں جتنے معجزے درج ہیں وہ بادشاہ کے ملازم کو چھوڑ کر سب ایسے ہیں کہ مسیح بے پوچھے اور بے کہے خود بخود ان کو وجود میں لاتا ہے ۔ یعنی کوئی اس سےدرخواست نہیں کرتا بلکہ وہ آپ ہی آپ ان کو وجود میں لاتا ہے ۔

آیت نمبر ۷۔اس بیمار نے جناب ِ مسیح کو جواب دیا۔۔۔۔۔کوئی ایسا آدمی نہیں کہ جب پانی ہلے ۔۔۔۔دوسرا مجھ سے پہلے اتر پڑتا ہے ۔

اس شخص کے جواب سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ گویا وہ مسیح کے سوال کا جواب نہیں دیتا۔ بلکہ اسے بتاتا ہے کہ میں کیو ں اب تک اس بیماری میں مبتلا ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ پانی کی تاثیر تھوڑی دیر تک رہتی ہے۔ اورمیں ایسا کمزور ہو ں کہ خود اس میں اتر نہیں سکتا اور غیر میری مدد نہیں کرتے لہذا اس بیماری میں اب تک مبتلا ہوں گوہر چند چاہتا ہوں کہ کسی طرح کے پنجہ سے مخلصی پاؤں۔

میرے پاس کوئی ایسا آدمی نہیں۔ وہ نہ صرف تندرستی کی نعمت سے محروم ہے بلکہ دوستوں کی دوستی سے بھی محروم ہے۔ یہ جملہ انسان کی بےمہری اور سخت دلی پر دلالت کرتا ہے ۔

جب پانی ہلے تو مجھے حوض میں اتاردے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی کسی وقت معینہ پر جنبش نہیں کرتا تھا۔ ورنہ یہاں اتنی دیر تک ٹھیر کر انتظار کرنے کی ضرورت نہ تھی۔

میرے پہنچتے پہنچتے دوسرا مجھ سے پہلے اتر پڑتا ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ جگہ بہت تنگ ہوگی کیونکہ وہ یہ نہیں کہتا کہ دوسرے مجھ سے پہلے اتر پڑتے ہیں بلکہ یہ کہتا ہے کہ دوسرا مجھ سے پہلے اتر پڑتا ہے ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جگہ بہت تنگ تھی۔ اور صرف ایک ہی اتر سکتا تھا۔

آیت نمبر ۸۔مسیح نے اس سے کہا اٹھ اور اپنا کھٹولا اٹھا کر چل۔

آخر کار اس کی انتظاری اور بے قراری کا وقت تمام ہوجاتا ہے۔ اور مسیح اسے شفا بخشتے ہیں۔ مسیح اس جگہ اس مریض کے ایمان کےمتعلق کچھ تحقیق نہیں کرتے ۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس میں ایمان ہے ۔ اور وہ بھی اس کے حکم کی تابعداری سے اپنے ایمان کا ثبوت دیتا ہے ۔ اس نے اس کا حکم مانا اور محسوس کیاکہ اس حکم کے ساتھ ا س  کی قدرت کا دریا بھی بہ نکلا ہے ۔

کھٹولا ۔ اس سے مراد چٹائی یا کوئی کپڑا مثل دری کے ہوگا۔

دیکھو شفا کی کاملیت ۔ اس میں تین درجہ ہیں۔ اٹھ ۔ کھٹولا اٹھا۔ اس کو کامل شفا ملی۔ واضح ہو کہ یہ شخص وہی شخص نہیں جو چھت کے نیچے اتارا گیا تھا ۔(حضرت متی 9حضرت مرقس 2اور حضرت لوقا 5)وقت اور جگہ اور تفصیل سب ظاہر کرتے ہیں کہ وہ یہ شخص نہ تھا۔ خصوصاً یہ بات کہ معجزا ہذا سبت کے روز وقوع میں آیا اس تفریق کے لئے فیصلہ کن ہے ۔

آیت نمبر ۹۔وہ شخص فوراً تندرست ہوگیا اور اپنا کھٹولا اٹھا کرچلنے لگا۔

اس مریض کا کھٹولا اٹھا کرچلنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ معجزہ ایک حقیقی معجزہ تھا۔ کیونکہ سوا ئے الہٰی قدرت کے اور کوئی چیز اتنے برس کے مریض کو اس قابل نہیں بناسکتی تھی کہ وہ نہ صرف آپ ہی چلے بلکہ بوجھ بھی اٹھائے  ۔اعماالرسل 3باب 2آیت میں ایک لنگڑے کےشفا یاب ہونے کا ذکر پایا جاتا ہے ۔جو شفا پاکر کودنے اور خدا کی تعریف کرنے لگ گیا۔ وہ شخص ما ں کے پیٹ سے لنگڑا پیدا ہوا تھا۔ لہذا اس کا لنگڑا پن اس کے کسی شخصی گناہ کا نتیجہ نہ تھا۔ مگر اس شخص کو کھٹولا اٹھانے کا حکم دیا گیا تاکہ یہ فعل  اس کےپرانے گناہ کو اسے یاددلائے۔

آیت نمبر ۱۰۔وہ دن سبت کا تھا۔ پس یہودی اس سے جس نےشفا پائی تھی کہنے لگے کہ آج سبت کا دن ہے ۔ تجھے کھٹولا اٹھاناروا نہیں۔

اس حصہ میں یعنی 10تا 18آیت تک اس بحث کا ذکر ہے جو اس معجزہ کے سبب سے برپا ہوئی۔ اور اس بحث سے تین باتیں ظاہر ہوتی ہیں اول یہ کہ اس مریض کی شفا یابی الہٰی رحمت  اور انصاف کو ظاہر کرتی ہے جیسا کہ مسیح کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے (آیت 14)دوم یہودیوں کا الزام لگانا (آیت 10،16،18)سوم مسیح کا اپنے تیئں ان کے الزام سے بری کرنا (آیت 17)۔

یہودی۔ یہ لفظ مسیح کے مخالفوں کے لئے آیاہے۔ اور بعض دفعہ عام قوم کے لئے بھی آتا ہے ۔ مگر یہاں دینی پیشواؤں کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ شائد سہنڈرم کے شرکا ء سے مراد ہے (دیکھو 1باب 19آیت ،نیز دیکھو 7باب 1آیت ،9باب 22آیت ،15باب 12آیت )اب یہ لوگ نکتہ چینی شروع کرتے ہیں اور خصوصاً اس لئے کہ اس وقت ان کے پاس مخالفت کے لئے ایک بہانہ موجود ہے اور وہ یہ کہ اس نے اس مریض کو سبت کے دن کھٹولا اٹھانے کا حکم دیا۔اور ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرح ان کے اعتراض کی تائید پرانہ عہد نامہ اور نبیوں کاکلام بھی کرتا تھا۔(توریت شریف کتاب خروج 23باب 12آیت ،31باب 14آیت ،35باب 2،3آیت ،کتاب گنتی 15باب 32آیت ،بائبل شریف صحیفہ حضرت نحمیاہ 13باب 15آیت ،اور خصوصا ً صحیفہ حضت یرمیاہ 17باب 2آیت )سو    وہ سمجھتے تھے کہ اب وہ ہمارے چنگل سے کسی طرح نہیں چھوٹ سکتا۔ لیکن یہ ان کی غلطی تھی۔  کیونکہ مسیح کا یہ دعوے ٰتھا ۔ اور وہ واجب دعویٰ تھا ۔کہ سبت کے دن نیکی کرنا روا ہے (حضرت لوقا 6باب 9آیت)اور اگر یہ دعوےٰ صحیح ہے تو پھر اس شفا یافتہ مریض کا کھٹولا اٹھانا جائزکام نہ تھا کیونکہ اس کا یہ فعل کوئی جداگانہ فعل نہ تھا بلکہ اس کےشفا پانے کا ایک جزو تھا۔ یعنی وہ اس فعل سے ثابت کرتا ہے کہ میں درحقیقت شفا پاگیا ہوں۔ پس اگر شفا پانا واجب نہ تھا تو کھٹولا اٹھا کر چلنا بھی جو اس کا لازمی نتیجہ  اور ثبوت تھا نہ واجب نہ تھا۔پس بجائے اس کے سبت ٹوٹے اس معجزے سے سبت کی توقیر ہوئی ۔ کیونکہ سبت  کے روز نیک کام کرنا شریعت  کے خلاف نہ تھا بلکہ اس کا نہ کرنا خلاف تھا۔

آیت نمبر ۱۱۔اس نے انہیں جواب دیا۔ جس نے مجھے تندرست کیا اسی نے مجھے فرمایا کہ اپنا کھٹولا اٹھا کر چل۔

یہ جواب بالکل سادہ ہے مگر نہائت پر مطلب ہے ۔ ان لوگوں نے مذکورہ بالا مقامات کے زور پر اس قدر بے شمار باتیں سبت پرستی کے متعلق پیدا کردی تھیں۔(جن کا ذکر حضرت لوقا 13باب 15،16میں آئے گا )کہ ایک عام اور ان پڑھ آدمی یہ فیصلہ نہیں کرسکتا تھا کہ سبت کے روز کیا روا ہے اور کیا ناروا ہے۔ مگر یہ شخص ایسا جواب دیتا ہے جو حکمت اور دانائی سے پر ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ جس نے مجھے صحت یاب کیا اسی نے کھٹولا اٹھانے کا حکم کیا۔ اور میں اس کے حکم کی نافرمانی نہیں کرسکتا ۔ کیونکہ اگر وہ اس قابل ہے کہ ایسے پرانے اور دیرپامرض کو اپنے کلام کے زور سے دور کردے تو وہ اس لائق بھی ہے کہ اس کی فرماں برادری کلی طور پر کی جائے ۔ اور پھر وہ قادر اور ہم درحکیم کب مجھے کوئی ایسا کام کرنے کو کہتا جو شریعت کے بر خلاف ہوتا ؟اگر ہمارے مسیحی کاموں سے دنیا ہمارے بر خلاف ہوجائے اور انہیں اپنے دستور وں اور اصولوں کے بر خلاف سمجھے تو ہمیں یہ جواب دینا چاہیے۔(مقابلہ کروحضرت یوحنا 9باب کے جنم کے اندھے کے جواب کے ساتھ )۔

آیت نمبر ۱۲۔انہوں نے اس سے کہا وہ شخص کون ہے جس نے تجھ سے کہا اپنا کھٹولا اٹھا کر چل ؟

ان لوگوں کے حسد اور دشمنی کو دیکھ کر کیسا تعجب آتا ہے۔ وہ یہ نہیں پوچھتے کہ وہ شخص کون ہے جس نے تجھے اچھا کیا ؟بلکہ یہ پوچھتے ہیں "وہ شخص کون ہے جس نے تجھ سے کہا اپنا کھٹولا اٹھا کر چل "؟لازم تھا کہ وہ شخص کی ملاقات کی آرزوظاہر کرتے ہیں جس نے یہ پر فضل کا م کیا تھا۔ پر برعکس اس کے وہ بحث اور فساد کی وجہ ڈھونڈتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ انہوں نے معجزہ کو نظر انداز کیا۔اور مسیح کے حکم کو لے لیا۔شائد وہ جانتے تھے کہ وہ شخص جس نے اسے شفا بخشی ہے کون ہے یا انہوں نے تاڑ لیا ہوگا کہ وہ مسیح ہے ۔ اور اب سوال کے وسیلے اس شفا یافتہ مریض کو اس کے بر خلاف کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا اپنے سوال کے وسیلے اس پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ شخص جس نے تجھ سے سبت تڑوایا خدا کی طرف سے نہیں ہوسکتا ۔ کتنے لوگ ان کی مانند اس دنیا میں موجود ہیں جو ہمیشہ نکتہ چینی اور عیب جوئی کے درپے رہتے ہیں۔ اور مسیحی مذہب کے پھلوں  کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔ اغلب ہے کہ مسیح نے یہ حکم سبت کے متعلق جو غلطیاں پھیل رہی تھیں ان پر حملہ کرنے کے لئے دیا ہو۔

آیت نمبر ۱۳۔لیکن جو شفا پا گیا تھا نہیں جانتا تھا کہ کون ہے کیونکہ بھیڑ کے سبب مسیح وہاں سے ٹل گیا تھا۔

نہیں جانتا تھا۔ غالب یہی ہے کہ وہ مسیح سے ناواقف تھا اور کہ اس نے اسے اسی موقعہ پر دیکھا تھا اور صرف اتنا جانتا تھا کہ وہ ایک پر محبت اور صاحب قدر شخص ہے جس نے میرے پاس آکر مجھ سے پوچھا کہ کیا تو شفا یاب ہونا چاہتا ہے ؟اور پھر اپنی لاثانی قدرت سے مجھے شفا یاب کردیا۔

بھیڑ کے سبب سے مسیح وہاں سے چلے گئے ۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ وہاں سے اس سبب سے چلا گیا کہ نہیں چاہتا تھا کہ اس معجزہ کے سبب اس کی تعریف کی جائے یا شائد غالباً یہ وجہ ہو کہ ابھی اس کا وقت نہ آیا تھا۔لہذا وہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگوں کو کسی برانگیختہ کرے فل "ٹل گیا تھا "اصل میں مساوی سر جھکا کر نکل گیا "یا "تیر کر باہر نکل گیا "کے ہے۔اور زیادہ بہتر خیال یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ناصرت میں (حضرت لوقا 4باب 30آیت)اور ایک موقعہ پر ہیکل میں (حضرت یوحنا 10باب 39آیت)ہوا ویسا ہی اس وقت بھی ہوا۔ یعنی وہ معجزانہ طور پر یا کثرت اژدحام کے سبب اس جگہ سے ایسا صاف نکل گیا کہ کسی نے اسے نہ دیکھا۔

آیت نمبر ۱۴۔ان باتوں کے بعد وہ مسیح کو ہیکل میں ملا۔ اس نے اس سے کہا دیکھ تو تندرست ہوگیا ہے پھر گناہ نہ کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ تجھ پر اس سے بھی زیادہ آفت آئے۔

یہ معلوم نہیں کہ کتنے عرصہ کے بعد وہ شخص مسیح کو ہیکل میں ملا ۔غالباً اسی دن ملا ہو کیونکہ امید ہے کہ شفا پانے کے بعد اس نے پہلا کام یہی کیا ہوگا ہیکل میں جاکر شکریہ ادا کیا ہوگا۔

ہیکل میں ملا۔ ان لفظوں پر بزرگ  آگسٹین کا خیال قابل غور ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم مسیح کو بھیڑ میں نہیں پہچان سکتے ۔ ہم تنہائی کے عالم میں اسے پہچانتے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ ہیکل میں اسے پہچانتے ہیں۔ اس آدمی نے بھیڑ کے درمیان اس کو پہچاننے کی خوشی حاصل نہ کی پر جب ہیکل میں آیا تو جانا کہ وہ کون ہے ۔ تنہائی میں جاکر جب ہم دعا ومناجات میں مشغول ہوتے ہیں تب مسیح اور مسیح میں خدا ہم پر ظاہر ہوتا ہے ۔

دیکھ تو تندرست ہوگیا ہے پھر گناہ نہ کرنا۔ایسا نہ ہو کہ تجھ پر اس سے بھی زیادہ آفت آئے۔ ہم تو یہ نہیں جانتے کہ اس کا کیا گناہ تھا۔ مگر مسیح اس کے گناہ کو جانتا تھا اور وہ آدمی آپ اپنی ضمیر کی روشنی میں جانتا تھا کہ وہ کیا گناہ ہے۔

مسیح اس جگہ اس مریض کی دیرپا اور ضعف افزا بیماری کو اس کے کسی خاص گناہ سے مربوط کرتا ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ اس دنیا میں کئی گناہ ہیں جو اپنی سزا جسم کے امراض میں جو ان کے سبب سے ناحق ہوتے ہیں پاتے ہیں۔ شائد اس آدمی کے بارے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ پر ہم خبردارر ہیں اور لوگوں کے دکھ اور مصیبت کو ہمیشہ ان کی بدی یاکسی گناہ کا نتیجہ نہ سمجھیں۔ کیونکہ دکھ سے اور مطلب بھی پورے ہوتے ہیں۔(دیکھو حضرت یوحنا 9باب 3آیت )اورپھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ خدا ان کو جنہیں پیار کرتا ہے تنبیہ کرتا ہے ۔ تاہم یہ بات بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ گو بہت درجہ تک انسان کو اس کے اعمال ناکردنی کی سزا آخرت کے روز ملے گی تاہم اس دنیا میں بھی بعض حالتوں میں ہمارے گناہ اپنی سزا اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جو قصور آدمی اوروں کا کرتا ہے ۔وہی قصور لوگ اس کا کرتے ہیں۔ یعقوب کی طرح فریب دینے والا خود فریب کھاتا ہے ۔ اور جو زندگی کے پاک رشتوں کو ناپاک کرتا خود اپنے رشتہ داروں کی عصمت کی تباہی کا زخم داؤد کی طرح کھاتا ہے ۔ اخیاب کا پوتا نبات یز ر عیلی کھیت میں فریب سے اتارا جاتا ہے (بائبل مقدس 1سلاطین 9باب 23آیت )۔

پھر گناہ نہ کرنا ایسا نہ ہو کہ تجھ پر اس سے بھی زیادہ آفت آئے۔ اس سےسزائے الہٰی کی سختی اور شدت ظاہر ہوتی ہے ۔ ایک خاص گناہ نے اس کی زندگی کے مزہ کو بالکل بے لطف کردیا۔ چنانچہ اسے اڑتیس سال تک دکھ اٹھانا پڑا۔ اور یہاں اس کو خبر دی جاتی ہے کہ اگر پھر ارتکاب گناہ کرے گا تو اس سے بھی زيادہ ہولناک مصیبت میں گرفتار ہوگا۔ اگر ہم اس جگہ خدا کی سزاؤں کی شدت محسوس کرتے ہیں تو لازم ہے کہ اس کے ساتھ اپنی ذمہ واری کو محسوس کریں۔ اور جانیں کہ وہ بھی بہت بڑی ہے۔

آیت نمبر ۱۵۔اس آدمی نے جاکر یہودیوں کو خبر دی کہ جس نے مجھے تندرست کیاوہ مسیح ہے ۔

یاد رہے کہ اس کا اطلاع دینا اس غرض سے نہ تھا کہ ان کے نائیر غضب اور آتش حسد کو زیادہ مشتعل کرے بلکہ اس لئے کہ شکر گزار دل کے ساتھ انکو اس کی جس نے اسے شفا بخشی خبر دے ۔وہ اگرچہ اس سے بخوبی واقف نہ تھا تاہم اتنا غالباً کئی ذرائع سے جان گیا ہوگا کہ وہ ایک نبی ہے گو اسے یہ خبر نہ تھی کہ یہی نبی مسیح ہے۔پس اس نے خیال کیا ہوگا کہ جس کی نسبت اس قدر بحث ہورہی ہے میں اس کی خبر ان کو جاکر دیدوں اور جب وہ ان کو ملے گا تو خود ان کے منہ بند کردے گا ۔ یایوں کہیں کہااس پر سبت توڑنے کا الزام لگایا گیا تھا اور ہم نے دیکھا کہ اس نے اس کی مدافعت میں یہ کہا تھا کہ " جس نے مجھے شفا بخشی ہے اسی نے مجھے کھٹولا اٹھانے کو کہا ہے "اور اب جب کہ وہ اسکے نام سے واقف ہوجاتا ہے وہ اپنے بیان کی تصدیق کے لئے یہ خبر ان کو پنچادیتاہے کہ جس  کے حکم کی تعمیل میں میں نے کھٹولا اٹھایا تھا وہ مسیح ہے ۔

 آیت نمبر ۱۶۔اس لئے یہودی جنابِ مسیح کو ستانے لگے کیونکہ وہ ایسے کام سبت کے دن کرتا تھا۔

لیکن اس مریض کے بیان یا اطلاع سے کچھ فائدہ نہ ہوا۔ بلکہ وہ اور بھی ناراض ہوئے۔ نہ اس لئے کہ اس نے صرف اسی شخص کو سبت توڑنے کی تعلیم دی بلکہ خود بھی سبت کو توڑڈالا۔ کیونکہ اس مریض کو سبت کے روز شفا بخشی ۔ لیکن مسیح اپنے جواب کے وسیلے ان کو سکھاتے ہیں کہ سبت کو کس نظر سے دیکھنا چاہئیے اور نیز چاہتا ہے کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ وہ باپ (پرودردگار)کا ازلی بیٹا (نعوذ بالالله جسمانی نہیں بلکہ روحانی بیٹا) ہے اس سے کیا تعلق رکھتا ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں۔

آیت نمبر ۱۷۔میرا باپ (پروردگار )اب تک کام کرتا ہے اور میں بھی کام کرتا ہوں۔

اس آیت میں جناب ِ مسیح اس الزام کو آپ پر لگایا گیا رفع کرتے ہیں۔ وہ گویاہ یہ کہتے ہیں کہ اگر خدا سبت کو توڑتا ہے تو میں بھی توڑتا ہوں۔ کیونکہ وہ اپنی قدت کاملہ سے ہر دم اور ہر لمحہ خلقت کے کام کو سنبھالے رہتا ہے ۔ یہ مختصر سا جواب ہے ۔ مگر اس سے زیادہ پر زور اور مدلل جواب اور نہیں ہوسکتا ۔

اب تک ۔خلقت کی ابتدا سے لے کر اب تک کام کرتا ہے۔

اگر ہم مسیح کے جواب کو مفصل طور پر بیان کرنا چاہیں تو شائد اس کا مطلب اس طرح بیان کرسکتے ہیں ۔"میرا باپ (پروردگار )اب تک انتظام پروردگاری کے وسیلہ کام کرتا ہے ۔ وہ اپنی رحمت اور فضل سے تمام کائنات کو بر قرار رکھتا ہے۔ اپنی تمام مخلوقات کی ضروریات کو رفع فرماتا ہے ۔ ہر طرح کی زندگی کو محفوظ رکھتا ہے ۔ آسمان سے مینہ برساتا اور طرح طرح کی موسمیں وجود میں لاتا ہے ۔ اور یہ سارے کام وہ جس طرح اور دنوں میں کرتا ہے اسی طرح سبت کے روز بھی کیا کرتا ہے ۔اور اگر وہ ایک دن ان کاموں کو بند کردے تو تمام سلسلہ درہم برہم ہوجائے پس جب اس نے پیدائش کے کام سے آرام کیا تو پروردگاری کے کام سے آرام نہیں کیا ۔ اسی طرح میں جو اس کا بیٹا ہوں میں بھی یہ اختیار رکھتا ہوں کہ سبت کے دن رحمت اور فضل کے کام کیا کروں۔اور جس طرح ان کاموں کے کرنے سے خدا سبت کو نہیں توڑتا اسی طرح میں بھی نہیں توڑتا ہوں۔ میرے پروردگار نے یہ حکم دیا کہ سبت کی تعظیم کی جائے لیکن اس نے سورج کو طلوع ہونے منع نہیں کیا اورنہ سبزے کو اگنے سے روکا۔ اسی طرح میں جو پروردگار کے ساتھ  ایک ہونے کا دعوےٰ کرتا ہوں سبت کی تعظیم کرتا ہوں مگر محبت اور رحم کے کاموں کو کرنا نہیں چھوڑتا ۔"اس جواب سے دو باتیں صاف ظاہر ہیں۔ اول یہ کہ سبت کے دن کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی بالکل  اس روز سست بن جائے اور کسی طرح کا کام نہ کرے ۔ بلکہ روشن ہے کہ سبت انسان کے لئے ہے ۔ اس کے فائدہ اور تسلی اور بہبودی کے لئے ہے۔رحمت کے کام اور وہ کام جو زندگی کی بہبودی اور مضبوطی کے لئے ضروری ہیں اس دن کئے جاسکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسیح اس جگہ اپنی الوہیت اور خدا کے برابر  ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ البتہ  اس جواب کی نسبت یہ بھی کہا جاسکتا  ہے وہ یہاں خداکے نمونہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور یوں سبت کے دن نیک کاموں کا جواز قائم کرتے ہیں مگر اس سے بھی عمیق مطلب تھا جو خداوند کومد نظر ہے۔ اور وہ یہ کہ میں خدا کا پیارا بیٹا ہوں۔ میں اور پروردگار ماہیت  اور عزت اور جلال اور اختیار میں ایک ہیں  جوکچھ وہ کرتا ہے سو میں کرتا ہوں اورکرنے کا اختیار رکھتا ہوں۔ جس طرح وہ سبت کا ما لک ہے اسی طرح میں ہوں۔ اور دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی اس کا مطلب تھا کیونکہ وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ اس پر کفر کا الزام لگاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ تقریر آتی ہے جس میں باپ اور بیٹے کے تعلق کا ذکر ہے ۔ مگر ہم چونکہ فقط معجزوں پر لکھ رہے ہیں لہذا اس پر کچھ تحریر نہیں کرسکتے ۔

نصیحتیں اور مفید  اشارے

1۔مسیح عید کو جاتے ہیں تاکہ اپنے اسرائیلی ہونے کے فرائض ادا کریں۔ تاکہ جو موقعہ انجیل سنانے کا ہے ہاتھ سے نہ جانے دیں۔نہ صرف یروشلم کے باشندوں کو بلکہ جو باہر آئے تھے انہیں بھی سنائے۔ ہم بھی ایسے موقعوں کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور فضل کے وسائل کی بے قدری نہ کریں۔

2۔گناہ کیسی مصیبتیں دنیامیں لایا ہے۔ پس ہم کس قدر گناہ سے نفرت کرنی چاہئیے۔ گناہ خوشی سے کیا جاتا ہے مگر در حقیقت وہ زہر ہے۔

3۔جو سب سے زیادہ مصیبت زدہ وہی مسیح کی توجہ زیادہ کھینچتا ہے ۔ مسیح کا رحم بے نظیر ہے اس کی خوشی رحم میں ہے ۔ (بائبل شریف صحیفہ حضرت میکا ہ 7باب 18آیت)۔

4۔ہمیں خدا کی مدد کے منتظر رہنا چاہیئے۔ پر یاد رہے کہ ایک انتظار واجب اور دوسرا غیر واجب ہے۔ جوکچھ ہم خود کرسکتے ہیں اس کا انتظار نہ کریں۔

5۔مسیح دیانت دار خواہش کو بھی بعض وقت ایمان کی جگہ قبول کرتے ہیں۔ پر صرف اسی وقت جب کہ وہ خواہش اس سے برکت پانے کی ہو وہ سب لوگوں کو قبول کرنے کے لئے تیار ہے۔ کوئی اپنی نالائقی کے سبب سے نہ رکے۔

6۔جناب ِ مسیح صرف ہماری مرضی چاہتے ہیں نارضامندی انسان کی بدبختی کا باعث ہے۔ مسیح کا سوال شائد ہم پر بھی عائد ہے۔کیا تو اپنی بیماری سے آگاہ ہے ۔ کیا تو چاہتا ہے کہ تجھے اچھا کروں ؟کیا تو چاہتا ہے کہ میں جس طرح چاہوں اسی طرح شفا بخشوں۔کیا تو راضی ہے کہ میرا نسخہ استعمال کرے ؟کیا تو چاہتا ہے تو شفا پائے۔ کیا تو ایمان لاتا ہے؟

7۔وہ کہتا ہے کہ جس نے مجھے شفا بخشی اسی نے مجھے کھٹولا اٹھانے کو کہا۔ اقرار ہوخواہ کیسا ہی خفیف کیوں نہ ہو۔ ہم اپنی روشنی اور لیاقت کے بموجب مسیح پر گواہی دیں۔ اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ فرما ں برداری مزید برکتوں کا باعث ہوتی ہے۔ ہماری یہی درخواست ہو۔ اے مولا تو نے مجھے بچایا اب تیرا کیا حکم ہے ؟

8۔ہر بیماری اور غم گویا خدا کی ایک آواز ہے ۔ ہر دکھ میں ایک پیغام نہاں ہے ۔ مبارک ہیں وہ جو اسے سنتے اور دیکھتے ہیں۔

9۔دیکھویہ حکیم کیسا ہے ۔بیماری کو بخوبی سمجھتا ہے اور شفا بخشنے پر قادر ہے ۔پر محبت ہے ۔بیمار سے سارا حال دریافت کرنا ہے۔ پیار سے سارے خطروں سے آگاہ کرتا ہے۔جو چاہتے ہیں ان کو شفا بخشنے کا ذمہ لیتا ہے۔

10۔ایمان کی مشق زور پیدا کرتی ہے ۔ اس نے یہ نہیں کہا میں میں کس طرح چلوں مجھ میں تو طاقت نہیں ہے ۔ اس نے کھٹولا اٹھایا اور چل دیا۔

11۔دیکھو کہ دنیا کیسی خود غرضی کی جگہ ہے ۔ مدت سے یہ شخص یہاں تھا پر کوئی اس کی مدد نہیں کرتا ۔ جتنا زیادہ ہم جیتے اتنا ہی زیادہ یہ سیکھتے ہیں کہ دنیا خود غرض ہے۔

12۔اے تو جو شائد اڑتیس ہفتہ بلکہ اڑتیس گھنٹے دکھ کے شکنجہ میں نہیں کھینچا گیا۔ جس کی تکلیف بہت ہی کم ہے۔ اس اڑتیس برس کے بیمار کے دکھوں کی طرف دیکھ اور خدا کا شکر بجالا اور صبر کرنا سیکھ۔

ہم جس قدر دکھ میں ثابت قدم رہتے ہیں اسی قدر ہماری آزمائش تسلی بخش ثابت ہوتی ہے۔

13۔کیا مسیح کا کلام کن فیکون کی حقیقت ظاہر نہیں کرتا ؟

14۔اے نوجوانوکیا یہاں تمہارے لئے سبق نہیں؟ان جوانی کے گناہوں سے بچو جو انسان کو عمر بھر کے لئے بے کار اور بدنام بنادیتے ہیں۔ اس شخص نے غالباً جوانی میں گناہ کیا جو اڑتیس سال تک اس کا پھل کھایا۔ مسیح کے الفاظ سے جو اس نے ہیکل میں اس کی طرف مخاطب ہوکر بیان فرمائے یہی صادر ہوتا ہے۔

15۔ہمیں اچھے کاموں سے کبھی تعطیل نہیں ملتی ۔ سبت کے روز بھی چھٹی نہیں۔

16۔سبت کی شریعت ایک ایسے شخص کی شریعت ہے جو کبھی نیکی کے کاموں سے دست بردار نہیں ہوتا۔

"میرا باپ اب تک کام کرتا ہے اور میں بھی کام کرتا ہوں "ان لفظوں کے وسیلے مسیح اپنی الوہیت کی خبر دیتا ہے۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا, معجزات المسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (14784)
Comment function is not open
English Blog