en-USur-PK
  |  
17

مذہب میں اقتدار واختیار کا درجہ

posted on
مذہب میں اقتدار واختیار کا درجہ

THE PLACE OF AUTHORITY IN RELIGION

BY PROF: LOOTFY LEVONIAN

TRANSLATED BY

REV.S.N.TALIBUDIN B. A

 

مذہب میں اقتدار واختیار کا درجہ

 

پروفیسر:لطیفی لیونیان

مترجم

علامہ ایس ۔این طالب الدین صاحب بی ۔ اے

مذہب میں اقتدارواختیار کا کیا درجہ ہے؟مذہب کے متعلق بحث کرنے میں سب سے اہم ترین اوردلچسپ مسئلہ یہ ہے کہ مذہب میں اختیار کا کیا درجہ ہےاوراسی وجہ سے اس قضیہ کا مطالعہ کرنا اوراس پر غور وخوض کرنا ازبس ضروری ہے۔

          مثلاً ایک نوجوان جب فوجی خدمت کو ا ختیار کرتاہے تووہ اپنے خویش واقارب اورسابقہ کاروبار کو ترک کردیتاہےاور جونہی کہ وہ لباس نظامی کوزیب تن کرتاہے وہ دُوسرے کے حکم اور مرضی کے تابع ہوجاتاہے۔ اس کی نشست وبرخاست خواب اورخُوردونوش غرضیکہ اُس کی تمام جزویات زندگی کلیتہً حاکم کی رضا واختیار کے تابع ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح اُن ممالک میں جہاں حاکمِ وقت مطلق العنان ہوتاہے۔تمام رعایا بغیر حیل وحجت جملہ قواعد وقوانین کی متابعت کرتی ہے۔ قانون سب چیزوں سے بالاتر ہے ۔ وہ فرمانبرداری واطاعت کا متقاضی ہوتاہے اورکسی قسم کے اعتراضات کوقبول کرنہیں کرتا۔یہی خود مختار حکومت کے قیام واستقلال کی ضروری اورلازمی شرط ہے۔ جس طرح تنظیم نظامی (فوجی) میں ایک افسر اعلیٰ کل اختیار رکھتاہے اور بادشاہ علی الاطلاق کے لئے قانون مطلق ضرورت ہے۔ اسی طرح  دیکھنا یہ ہےکہ مذہب میں بھی ایسی طاقت موجود ہے یا نہیں۔ جو اُس اختیار اور قانون کا اظہار کرے ۔ جس پر مذہبی زندگی کا انحصار ہے۔ یعنی یہ کہ مذہب ہماری انسانی شخصیت کے ایک خارجی طاقت کی غلامی میں رہنے کی تائید کرتاہے یا وہ ہماری شخصی آزادی کے موافق ہے؟اب ہم اسی مسئلہ اساسی کے متعلق بحث کرینگے۔

          قدیم الایام سے انسان اپنی زندگی کے ہر پہلو میں ہمیشہ کسی نہ کسی خارجی طاقت کے ماتحت رہاہے۔ تمدن کی تاریخ سے یہ امر روشن ہوتاہے کہ انسان خانہ بدوشی کی زندگی سے شروع ہوکر ہمیشہ ایک حاکم مطلق یا رضای مطلق کے زیر حکم رہتاہے آیا ہے۔ خانقاہوں اور نیز مکتبوں کی تنظیم میں بھی مطلق العنانی رہی اور پادریوں اورمعلموں نے ایسے انتظامات کی تائید کی ۔ اِ نسان کی زندگی کا سب سے پاکیزہ ترین پہلو اُس کی خانگی زندگی ہے ۔ لیکن خانگی زندگی میں بھی یہی قاعدہ اوردستور رائج رہا ہے اور فضیلت اور بزرگی کا اُصول شوہر اور بیوی کے باہمی تعلقات اور والدین اور اولاد کے باہمی رشتہ کا فیصلہ کرتا رہاہے۔ عجیب بات تویہ ہے کہ انسان کی تاریخ میں عوام اورحکام ہردونے اسی سرداری اورحکومت کے اُصول کی طرفداری کی ہے۔ اورمرورزمانہ کے ساتھ یہ اُصول طرفین کے لئے گویا قانون قدرت بن گیا ہے ۔ یہاں تک کہ اکثر لوگ اس اُصول کودُرست کرنے اوراس کی صورت کو بدلنے کی کوشش کوقوم کی تباہی  اور بربادی خیال کرتے ہیں۔ انسان کی مذہبی زندگی کا رحجان بھی اسی طرف ہے۔ مذہبی زندگی میں لوگوں نے اپنے آپ کو ایسے ایسے اختیار کے تابع رکھنا جو اُن کے نزدیک ایک قسم کی مخفی طاقت سے معمور ہوتاہے باعثِ عزت سمجھاہے۔ اوراُنہوں نے آنکھیں بند کرکے اس کے احکام اور شریعت کی فرمانبرداری کو انتہائی مسرت کا سرچشمہ سمجھاہے۔ خداوند کریم، انبیاء کتب سماوی اورراہبوں کے متعلق انسان کے عقائد عموماً اسی بناء پر قائم ہیں۔ اور لوگوں کواس سے کامل تسلی ہوتی رہی ہے۔ جس طرح زندگی کے دیگر شعبوں میں یہ دیکھا جاتاہے کہ انسان قدرتاً اپنے آپ کو کسی بیرونی طاقت کے ماتحت کرلیتاہے وہی کیفیت اطاعت مذہب میں ہے اور اکثر اوقات اس مطلق العنانی کے متعلق شک وشبہ کرنا (یااعتراض کرنا) مستحسن نہیں سمجھا گیا۔

          لیکن تاریخ  ہم کو بتاتی ہے کہ عقل انسانی کی تدریجی ترقی کے ساتھ حُریت کا پاک جذبہ پیدا ہوتا گیا اور زندگی کے ہر شعبہ میں انسان نے استبدادسے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ تاریخ تمدن ایک طرف توگویا حلقہ استبداد سے نکلنے کی مسلسل جدوجہد اور تدریجی کامیابی کی تاریخ ہے اور دوسری طرف شخصی آزادی (حرُیت) کے قیام کی بلکہ مذہب اور سائنس کی وہ ترقی جس نے گذشتہ  چند صدیوں میں عقلی دنیا میں انقلاب عظیم برپا کردیا درحقیقت  ماسواسی اس کے اور کچھ نہ تھی کہ محض سائنس کے تجسس اور تحقیقات میں  ایک خارجی اختیار مطلق کے ماتحت ہونے سے انکار اوراس کے برخلاف اعتراضات کا انبار۔ اس کے بعد حکمت طبعی کا مطالعہ آزاد خیالی اور عمومی مشاہدات کی بناء پر نمایاں ترقی کا باعث ہوا۔ دور حاضرہ میں شخصی آزادی کی خواہش اور تنافر استبداد فقط سائنس اور علم تک ہی محدود نہیں بلکہ انسانی زندگی کے ہر پہلو یعنی تمدنی اور سیاسی اور دیگر پہلوؤں تک سرایت کرچکاہے اور لازماً مذہب بھی اُس سے خالی نہیں رہا۔ انسان کی شخصیت  قدرتاً  ایک خودی کا وجود ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ انسان اپنے کاروبار کے ایک حصہ کو بحالت غلامی اوردوسرے حصہ کو مردِ آزادی کی مانند رکھے۔ وہ شکوک اور شبہات جواُسے کام کے ایک جزو کے متعلق  ستاتے ہیں اسی طرح دیگر  اجزا کے متعلق بھی آزادی کے ساتھ اُس کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ سائنس کے موجودہ مشاہدات کی رُو سے متعدد  اصول معاشرت اور تصورات متعلق سائنس جوکسی بیرونی اقتدار پر مبنی تھے معدوم ہوگئے ہیں اور یوں بہت سے غور کرنے والوں نے مذہبی اعتقادات کی حقانیت کے متعلق سوال پوچھنے شروع کردئیے ہیں بلکہ اُن کے دلوں میں اس کے متعلق شکوک وشبہات بھی پیدا ہونے لگے ہیں۔ چونکہ ان حالات کے مقابل جولوگ خارجی اقتدار کے حامی تھے اس تحریک سے مضطرب  ہوئے۔ لہذا اُنہوں نے ان اعتقادات کی حفاظت کے زعم میں ادنیٰ سے ادنیٰ سوال کرنا بھی مذہب کے انکار سے مترادف سمجھا۔ اس ظلم وتعدی کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ جو اس اندیشے کے زیرواثر ہوکر اپنے آپ کو اس بیرونی اورکلی اقتدار سے آزاد کرنا چاہتے تھے اُنہوں نے شک وشبہ کواس قدر جگہ دی کہ وہ مذہب کو محض بے معنی تصور کرنے لگے۔ فی زمانہ مذہب کے متعلق یہ سوال نہایت اہم سوال بن گیا ہے ۔ زندگی کے دیگر پہلوؤں  کی مانند لوگ ان دونوں خیالوں میں سے ایک کی تقلید کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یا تو وہ اس امر پر اصرار کرتے ہیں کہ مذہب میں ایک بیرونی اقتدار ہے اور مذہب فقط اسی اختیار مطلق سے  دائم وقائم رہ سکتاہے۔ یا خیالات کے دیگر پہلوؤں کی مانند وہ اس امر کا انکار کرتے ہیں کہ مذہب ایک بیرونی اقتدار ہے بلکہ مزید برآں یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ اس طرح لوگ مذہب جیسے اہم مسئلہ کا جوہماری زندگی کے ہرایک پہلو سے وابستہ ہے لحاظ کرتے ہوئے یہ محسوس کرتے ہیں کہ یا تو وہ مجبوراً  مذہب کو قبول کریں اوراُس خارجی اقتدار کے تابع رہیں یا بیرونی اختیار کا انکار کرنے کے ساتھ ہی مذہب کا بھی انکار کردیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہم اس مشکل کوکس طرح حل کرسکتےہیں؟ مذہب  کی جانب ہماار روایہ یا ہونا چاہیے؟

          ہرایک سوال میں مقصد کے مطابق ہی ذرائع کا فیصلہ ہوتاہے۔ مثلاً اگرہم پانی کی قدرتی خاصیتوں اوراس کی کیمیائی ترکیب کے بارے میں کس کو سکھانا چاہیں توپہلے ہمیں اُسے پانی کی نسبت بتاتے ہیں اورپھر اُسے یہ صلاح دیتے ہیں کہ پانی کے متعلق علم کیمیا اور علم طبعی کی کتابوں میں پڑھے۔ اس طرح وہ شخص پانی کے بارے میں سیکھتا ہے۔ لیکن وہ شخص جوفن شناوری سیکھنا چاہتاہے۔ کتابوں کے ذریعہ سے اس کو عملی طور سے ہرگز نہیں سیکھ سکتا خواہ اُن کتابوں میں اُس کے متعلق کتنے ہی قاعدے کیوں نہ لکھے ہوں۔ پانی کے متعلق قیاسی علم سیکھنے کی نسبت وہ پانی کے اندر داخل ہوکر اور وہاں ہاتھ پاؤں مار کر خود اپنے تجربہ سے کہیں زیادہ جلد تیرنا سیکھیگا بہ نسبت اس کے کہ وہ پہلے پانی کے متعلق قیاسی علم حاصل کرے ۔ شناوری کے فن کا سیکھنا پانی کے علم سے ممکن نہیں ہوسکتا بلکہ اُس کے لئے پانی پرصحیح طریق سے سہارا لینے کے علم کی ضرورت ہے ۔ اچھے تیراک بننے کے لئے ذاتی تجربہ چاہیے۔ مذہب کا مضمون بھی ایسا ہی ہے ۔ پس اس مضمون کے متعلق  یہ نکتہ  کہ آیا مذہب  میں اقتدار خارجی ہے یا نہیں ہے ۔ اس امر کا فیصلہ کریگا کہ مذہب سے کیا مراد ہے اور متدین ہونے سے کیا اور کہ ہمارا مقصد کیا ہے ۔ اگر مذہب بیرونی رسوم کا ایک سلسلہ تصور کیا جائے یا یہ کہ وہ بعید  الفہم  اسرار اور عقائد کا ایک قاعدہ و طریقہ ہے۔ اورپابند شریعت کے معنی پوشیدہ طور سے سحر آمیز رازوں سے واقف ہوناہے۔یا کسی خاص عقیدے کے ہر لفظ  کا دُہرانا ہے تواس کا عقلی نتیجہ یہ ہوگا کہ عام قوانین موجودگی جو بیرونی رسوم کا مکمل فیصلہ کرتی ہے اور وہ راہب  جو انسان کو ان اسرار کی تعلیم دیتے ہیں اور وہ ایمان جو عقائد کے طریقوں کا فیصلہ کرتاہے قدرتی  وطبعی  تصور کئے جائینگے اور خارجی اقتدار کا وجود لازم وواجب ہوجائیگا۔

          جہاں مذہب اس تصور اوراس مقصد کے مطابق ترتیب دیا جاتاہے وہاں خارجی اختیار مطلق بالکل لازم وواجب سمجھا گیا ہے۔ لیکن اگر مذہب سے یہ مراد ہے کہ ہمارا تعلق ورشتہ خدا اپنے خالق  اوراُن لوگوں کے ساتھ جن کےد رمیان  ہم بُودوباش رکھتے ہیں بلکہ تمام دنیا کی جانب صحیح ودُرست  ہو اورمذہب  کا مقصد انسان اوراس کے خالق کے درمیان اور خود انسان اوراُس کے ہم جنس انسان کے درمیان کامل موافقت اورآشتی ومصالحت  کوقائم کرنا ہو تو اس وقت اس سوال کی نوعیت کہ مذہب میں اختیار کا کیا درجہ ہے  بدل جائیگی۔

          درحقیقت اگرمذہب سے مُراد یہ ہے کہ اپنی ہستی بھول کر رضا بخدا ہوجائے اورخود غرضی کے عوض نفس کشی کی پیروی کی جائے اور باہمی تعلقات میں بجائے دشمنی دوستی کا رشتہ قائم کیا جائے ۔ یعنی یہ کہ اگر مذہب کا مفہوم زندگی  کی جانب ایک نیا روحانی انداز ہو توپھر مستبدانہ اختیار نہ صرف غیر ضروری ہی ہوتاہے بلکہ نقصان دہ بھی ۔چونکہ مذہب ان معنوں میں فضیلت  کا عقلی جُزو نہیں بلکہ زندگی کی جانب ایک خاص انداز ہے۔ اس لئے یہ صاف ظاہر ہے کہ وہ خارجی  اختیار  کے ذریعہ سے جبراً حاصل نہیں ہوسکتا۔ چونکہ یہ انداز روح کا ایک خاص تجربہ ہے لہذا  وہ فقط  شخصی تجربہ کے وسیلہ سے ممکن الحصول ہے ۔ یعنی خود اپنی آنکھ سے دیکھ کر قائل ہونے اور ذاتی عقیدہ کے ذریعہ سے۔ سچائی ضرور روح پر اثر پیدا کرتی ہے۔ انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ زندگی  کوایک نئی روشنی میں دیکھے اور زندگی کی جانب ایک نیا انداز پیدا کرے۔ حقیقی معنوں میں دیندار بننا رُوحانی  بصارت  اور ادراک اور ذاتی تجربہ کی رہنمائی سے قدم اٹھاناہے۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص  بعض باتوں  کواپنے ذاتی ایمان سے نہیں  بلکہ دوسروں کے بتانے سے یقین کرلے یا شائد اس وجہ سے کہ وہ مدت  مدید سے رائج ہیں۔ لیکن یہ دینی معاملات  میں ممکن نہیں اس طرح وہ محض مذہبی دیوانہ بن جائیگا۔ مذہبی دیوانگی ایک قسم کی غلامی ہے۔ برعکس اس کے مذہب کے حقیقی معنی انسانی شخصیت کا کماحقہ جلالی پایہ تک پہنچنا ہے اور انسانی روح کا ازسرِ نوپیدا  ہونا اور انسان کا صحیح معنوں میں آزادی حاصل کرنا ہے۔یہ پُر جلال حالت مذہبی  دیوانگی کے ساتھ وابستہ نہیں ہوسکتی ۔ جب مذہب کا مفہوم یہ ہو کہ اُس میں خارجی اقتدار  ہونا ضروری ہے۔ جس سے لوگوں سے یہ توقع کی جائے کہ وہ آنکھیں  بند کرکے اُس کے تابع ہوجائیں توذاتی ترقی رُک جائیگی کیونکہ اس طرح انسانی شخصیت دب جاتی ہے ۔ انسانی شخصیت زندگی کے تمام حلقوں میں صرف آزاد خیالی اور دلیِ یقین کے ذریعہ سے ترقی کرتی ہےاور مذہب کے لئے بھی صرف ایک یہی طریقہ ہے۔ اقتدار خارجی کا طریقہ انسان کوسریع الاعتقاد توبنادیتا ہے ۔ لیکن اُنہیں حقیقی ایمان کی نعمت نہیں مل سکتی ۔ ایمان صرف ذاتی تحریک وتشویش کا نتیجہ ہوسکتاہے۔

          اس نقطہ نگاہ سے مذہب کا مقابلہ فنون لطیفہ سے کیا جاسکتاہے بعض اوقات لوگ کسی مشہور مصور مثلاً ریفیل (RAPHAEL) کی کسی نفیس تصویر کو دیکھ کر یا (BEETHOVEN) جیسے مشہور ماہر علم موسیقی  کی دلکش راگ کو سن کر اُس کی تعریف کرتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ تصویر کے دیکھنے یاراگ کے سننے سے اُن کے دل میں کوئی خاص خوشی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ بلکہ اس وجہ سے کہ وہ اوروں کو ایسا کہتے سنتے ہیں اوریہ دیکھانا چاہتے ہیں کہ خود بھی بہت محظوظ ہوئے ہیں۔ شائد مذہب  کے معاملہ میں بھی ایسا ہی ہو۔ اکثر لوگ نہایت جوش وسرگرمی کے ساتھ مذہب کے متعلق بحث مباحثہ کرتے ہیں اور مذہب کی حمایت کرتے ہیں اس لئے نہیں کہ وہ مذہب کی حقیقت سے واقف ہوتے ہیں یا اس لئے نہیں کہ اُن کی رُوح میں کوئی حقیقی  اتحاد یا کوئی حقیقی میل ملاپ ہوتاہے بلکہ فقط  اس لئے کہ اُنہوں نے اپنے مذہبی معلموں سے ایسا سنا اورسیکھا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ نہ تو مذہب ہے اور نہ زہد وتقویٰ ، فی الحقیقت یہ ثابت کرنے کے لئے ریفیل کی مشہورتصویر ا یک معمولی خاکہ سے بہتر ہے یا بیتھوین کا عمدہ راگ معمولی خانہ بدوشوں کے سنکھ سے بہتر ہے۔ بحث ومباحثہ کرنا بالکل بے معنی ہوگا۔ آدمی کوخود اپنی آنکھ سے دیکھنا چاہیے اورسمجھنا چاہیے اوراُس کے دل میں حظِ زیبائی پیدا ہونا چاہیے تاکہ وہ اُس تصویر کی خوبصورتی کوسمجھ سکے اوراُس راگ کی دلسوزی کی تعریف کرسکے۔ یہ ذاتی تجربہ اور اندرونی حوشی پر منحصر ہے۔ کسی کو زبردستی اس کا قائل کرانا ممکن نہیں اور اگر بالفرض  کوئی اس طور سے اس کا قائل ہوبھی جائے تویہ صریحاً ریاکاری ہوگی۔ اسی طرح مذہب میں بھی ہے۔ مذہب کسی کے دل میں زبردستی نہیں ڈالا جاسکتا۔ نہ ہی بیرونی  طاقت  کی مطلق العنانی کے زور سے کسی کو زبردستی اس کا قائل بنایا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا جبر روا رکھا جائیگا تو اس کا نتیجہ ریاکاری اورمذہبی دیوانہ پن ہوگا۔ اس لئے کہ مذہب  شخصی تجربہ اورروح کا سوال ہے اور انسان اس تک فقط ذاتی تجربہ کی وساطت سے پہنچ سکتاہے اور روحانی فہم وعقل کے ذریعہ سے اُس کوسمجھ سکتاہے۔ حقیقی مذہب اور حقیقی زہدوتقویٰ حاصل کرنے کے لئے اورکوئی ذریعہ نہیں۔

          اس نقطہ نگاہ سے حق کو پہچاننے کے لئے مذہب کادارومدار انسانی رُوح کی استعداد پر موقوف ہے۔ حق کی شناخت کرنے اوراس کے محسوس کرنے کے لئے انسان روحانی استعداد رکھتاہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خواہ کسی حالت میں کیوں نہ ہو انسان کوایک بیرونی اختیار اورقید کے تابع رکھنا اس کی بنیادی استعداد کا منافی ہوگا جوانسانی شخصیت  کا بیش بہا خزانہ اوراس کی شخصی تکمیل کا بہترین ذریعہ ہے۔ لہذا سب سے اعلیٰ اور درست ترین بات یہ ہے کہ انسان کی روحانی استعداد پر جواُسے حق کی پہچان کے لئے حاصل ہے ۔ بھروسہ کرتے ہوئے حق کو اُس کے سامنے پیش کریں۔کیا آخر تعلیم کا یہی مقصد نہیں کہ ہم میں حق کے پہچاننے کی قابلیت پیدا ہوجائے۔ ورنہ اگر مدرسہ میں اُستاد اختیار مطلق سے کام لے اوریُوں کہے "یہی حق الامر ہے۔ اس لئے کہ میں کہتا ہوں اورچونکہ میں ایسا کہتا ہوں تمہیں اُسے قبول کرنا ہے"۔ اور وہ اپنے شاگردوں  کو اس امر کا عادی نہ بنائے کہ وہ حق کی تلاش بذاتِ خود کریں تووہ طوطے کی مانند فقط نقال پیدا کریگا۔جوبغیر سوچے سمجھے رٹ لیتے ہیں  نہ زبردست دماغ اورنکتہ شناس عقلیں ۔ مذہب میں بھی یہی حال ہے۔ انسانی طبیعت حق کومعلوم کرنے کی قابلیت  رکھتی ہے۔ مذہب کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کو حقیقی انسان بنائے اوراُسے سرفراز کرکے کمالیت کے درجہ تک پہنچائے۔لہذا مذہب ازبر نہیں کروایاجاسکتااورنہ اقتدار خارجی کے زور سے قبول کروایا جاسکتاہے۔ اس طریقہ سے فقط کو ر باطن مذہبی دیوانے ترتیب پاسکتے ہیں۔ مذہب اپنے مُدعا کو صرف اُسی وقت حاصل کرسکتاہے جب انسان کی مرضی کوآزاد رہنے دیا جائے اورروح پربھروسہ کیا جائے۔ جبر سے آدمیوں کومذہبی  رنگ نہیں دیا جاسکتا۔

          اگر مذہب کواس نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تواس میں الہامی کتُب مقدسہ ، انبیاء اورُرسل کے درجے تبدیل ہوجاتے ہیں۔اس وقت کتب مقدسہ احکام مطلق نہیں تصور کی جاتیں جن کو ہمیں پڑھنا اور حفظ کرناہے۔ جن کے اوامر اوراحکام کی تعمیل  ہم پر واجب ولازم آتی ہے۔ بلکہ اُس حالت میں وہ ایک رُوحانی نوربن جاتی ہیں ۔ جوہمارے افضل تریں جذبات پر اثر کرتی ہیں۔ انبیاء اور رُسل متکبر حکام کی مانند نہیں رہتے جوہمارے سر پر کھڑے ہوکر ہم پر حکمرانی کرتے ہیں اوریہ جانتے ہیں کہ ہم کورانہ اُن کے حکم بجالائیں بلکہ وہ مخلص دوست بن جاتے ہیں جوزندگی کی کشمکش میں ہمارے رفیق اورہمارے رہنما بننے کے قابل ہوتے ہیں کیونکہ گو وہ ہماری مانند تکلیفوں اور مصائب کے بار کے نیچے دبے رہے توبھی اُنہوں نے اپنی پاکیزگی اورجوانمردی کوہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اس سے الہامی کتب اور انبیاء اور رُسل کی قدر کم نہیں ہوجاتی بلکہ برعکس اس کے یہ اُن کو ہماری شخصیت کے لحاظ سے زیادہ  بلند پایہ پر رکھ دیتی ہے۔ جب وہ اس پایہ تک پہنچ جاتے ہیں جس کے وہ درحقیقت  حقدار ہیں توہماری روحانی زندگی کے اعتبار سے اُ ن کی وقعت زیادہ ہوجاتی ہے۔

          کتب مقدسہ کوایک کامل شریعت کی کتاب تصور کرنا اسکے صحیح مفہوم کوسمجھے بغیر اپنے اعمال میں اُس کے الفاظ کی پیروی کرنے سے ہم اپنے اعمال کی ذمہ واری سے سبکدوش ہوجاتے ہیں اورساری ذمہ واری کو اُن پر رکھ دیتے ہیں اوراس طرح گوایسا معلوم ہوتاہے کہ اس سے ہماری ضمیر کوہمارے اُن اعمال کی نسبت جوہم خود پسند نہیں کرتے تسلی اور اطمینان ہوتاہے لیکن اس سے ہماری روح کنُد ہوجاتی ہے اورہماری شخصیت گرجاتی ہے۔ کیونکہ حقیقی زہدوتقویٰ یعنی روح کی تکمیل ہمارے اعمال اورہمارے اخلاق کی نسبت شخصی ذمہ واری کے احساس کے ذریعہ سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔

          پھر اس نقطہ نگاہ سے مذہب میں خدا کے رُتبہ کے متعلق ہماری رائے بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔ اُس وقت خدا محبت اورمہربانی کا سرچشمہ بن جاتاہے  نہ ظالم اورجبار جودنیا کو اپنی طاقت قہاری کے باعث اپنی مرضی کے تابع رکھتاہے ۔وہ ایک محبت کرنے والا باپ بن جاتاہےجوہر ایک انسان کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتاہے  نہ ایک ایسا حاکم جس کے اعمال کے متعلق سوال نہیں کیا جاسکتا۔ اس طریق سے خدا کے لئے ہماری محبت وتعظیم وتکریم کا سبب اُس کے غضب کا خوف اور اس کے احکام کی نافرمانی کے باعث سزا کا ڈر نہیں ہوتابلکہ اُس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہمارے دل ودماغ کوکامل یقین ہوتاہے کہ حقیقی خوشی خدا کے ساتھ یگانگی ومطابقت  سے حاصل ہوتی ہے ۔ انسان اپنی فطرت میں خدا کی مانند اس لئے خدا ہمیں خاک اورپتھر سمجھ کر کسی مادی شریعت کے ذریعہ سے ہم مخاطب نہیں ہوتابلکہ یہ چاہتاہے کہ ہم کو ترغیب  دے کر صراطِ مستقیم پر لائے اس کا سلوک ہمارےساتھ یہ نہیں کہ وہ یہ چاہے کہ ہم بغیر حیل وحجت اس کی اطاعت کریں جیسا کہ کوئی حاکم بہ جبرواکرام کرائے۔بلکہ محبت کے ذریعہ سے جیسے ایک محبت کرنے والا باپ اپنے بچوں سے کرواتا ہے ۔ فی الحقیقت وہ چیز جوخدا ہم سے چاہتاہے صداقت ہے نہ کورانہ اطاعت  ، حقیقی محبت نہ کہ غلامی ۔ اس طور سے خدا کوقبول کرنے اوراُس سے رفاقت  پیدا کرنے سے ہماری انسانی شخصیت  کے خراب ہوجانے کے بجائے ہماری روحانی زندگی ایک اعلیٰ پایہ تک پہنچتی ہے اور ہماری شخصی آزادی کامل ہوجاتی ہے۔ خدا کے ساتھ ہمارے تعلق پیدا کرنے میں سب سے زیادہ خلوص نیتی کی ضرورت ہے کیونکہ حقیقی دوستی اور رفاقت کی پہلی شرط صدقدلی ہے۔ خدا ہم سے اورکچھ طلب نہیں کرتا۔ ہماری مذہبی زندگی سے متعلق اُس کے اختیار میں جبر کا عنصر نہیں بلکہ وہ اختیار دلی اختیار ہے۔ مذہبی زندگی کی ترقی اورکسی طرح ممکن نہیں ۔

          اس نقطہ نگاہ سے مسیح کی زندگی کا مطالعہ مذہبی معلم کی صورت میں کرنا نہایت اہم ہے۔ مسیح اور دیگر اسرائیلی دینی معلموں میں مروجہ کتب مقدسہ یعنی تورات ، زبور اورالہامی شریعت کی کتاب کے مطالعہ اوراُن کے روحانی  معانی کوسمجھنے میں بڑا اختلاف تھا۔ بنی اسرائیل کے د ینی معلم اپنی الہامی شریعت کا مطالعہ نہایت غور سے کرتے تھے اُسے زبر کرتے۔ ہرایک لفظ  کو خوب  پرکھتے ہرایک حرف تشریح نے لیکن خود اُس کے روحانی معانی سے واقف نہ ہوتے تھے وہ اس کے کل احکام کی کامل اطاعت پر اصرار کرتے تھے لیکن اس کے حقیقی  معنی سے بے بہرہ رہتے۔ وہ ظاہر ا رسوم کو بجالاتے لیکن اُس کے روحانی اُصول کی اہمیت کی جانب مطلق توجہ نہ کرتے پس وہ ظاہر مذہبی دیوانے اورنہایت متقی معلوم ہوتے تھے ۔ لیکن درحقیقت نہایت متکبر اور تنگ خیال تھے۔ وہ بظاہر توخدا کی خدمت کرتے تھے ۔ لیکن باطنی طورپر وہ اپنی نفسانی خواہشات کے غلام تھے۔ وہ اپنی الہٰی شریعت کے دس احکام کی تعمیل کرتے تھے لیکن حریص  اور بداخلاق تھے۔ چونکہ وہ الہٰی شریعت کو اپنی زندگی  کا اقتدار خارجی تصور کرتے تھے لہذا وہ یہ یقین کرتے تھے کہ اپنے دینی فرائض کی ادائیگی کے لئے یہ کافی اور وافی تھا کہ اُن کے اعمال اس الہٰی شریعت کے مطابق ہوں اور اس خیال  سے جو غرور اُن کے سروں میں سما جاتا تھا وہ اُنہیں ریاکاری  کی جانب کھینچ لے جانا تھا۔ فی الحقیقت  بنی اسرائیل کے دینی معلم ایک عمیق مذہبی جنون میں پھنسے ہوئے تھے۔ اُن کی زندگیوں میں خلوص نیتی اور سچائی کا نام ونشان بھی نہ تھااورمذہب کے حقیقی معانی کے سمجھنے سے کوسوں دُور تھے۔ برعکس اس کے مسیح نے بنی اسرائیل کی الہٰی شریعت کونہایت عزت وادب  کے ساتھ پڑھا لیکن وہ اس کے معانی کچھ اور سمجھتا تھا۔  وہ فقط الفاظ کو نہیں بلکہ روحانی اُصولوں کوزیادہ  لازمی  خیال کرتاتھا۔ رسوم اور دستوروں کے طرز ادائیگی کونہیں بلکہ اُن کے مقصد کو اور اس لئے وہ ان کے مطابق عمل کرتا تھا۔

          مثلاً بنی اسرائیل اس حکم کو جو انتقام لینے کے متعلق ہے یعنی "آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت" لفظ بلفظ بجالاتے تھے اوراس پر تفصیلی بحث کرتے تھے مثلاً ایسے معاملات  جہاں کسی شخص  نے دوسرے کا دانت  توڑدیا ہو اورخود اُسکے منہ میں کوئی دانت  نہ ہو جوتوڑا جائے اس کا فیصلہ الہٰی شریعت کے مطابق کیا ہونا چاہیے۔لیکن مذہب کے بنیادی اُصولوں  سے بالکل بے پرواہ تھے۔برعکس اس کے مسیح نے یہ فرمایا کہ ان احکام کا اصل مطلب انتقام کے خیال کو محدود بلکہ بالکل رفع کرنا ہے۔ اوراُس نے خود اپنی زندگی کا دستور العمل یہی قرار دیا۔

          یہودی معلم عہدِ عتیق کے اس حکم یعنی " توخون نہ کرنا" کی پوری تعمیل کرتے تھے اورخون کرنے کوخلاف قانون سمجھتے تھے لیکن باوجود اس کے وہ یہ نہ مانتے تھے کہ اپنے ہم جنس انسان سے عداوت رکھنی اس حکم کے متناقض تھی۔لیکن مسیح نے ان احکام اور فرمانوں کے حقیقی معانی کوسمجھاتے ہوئے یہ فرمایا کہ اپنے بھائی کوگالی دینا اوراپنے دل میں کینہ رکھنا خُون کرنے کے مترادف ہے۔

          اسرائیلی عہدِ عتیق کے مطابق خدا کے نام کی قسم تونہ کھاتے تھے لیکن وہ آسمان اور زمین کے نام کی قسم کو بُرا نہ جانتے تھے۔ اس طورسے وہ اپنے روزانہ کام میں جھوٹی  قسمیں  کھاتے تھے  اوراس بات کا یقین رکھتے ہوئے کہ وہ الہٰی شریعت کے فرمانوں اور قواعد کے خلاف عمل نہیں کرتے  اُنہیں مطلق افسوس نہ ہوتا تھا۔ لیکن برخلاف اس کے مسیح نے یہ فرمایا کہ کسی قسم کی قسم کھانا گناہ ہے اورتمہارے الفاظ فقط" ہاں" اور" نہ" ہونے چاہئیں۔

          الہٰی شریعت کے مطابق وہ نماز پڑھتے، روزہ رکھتے ، خیرات دیتے اورایسا کرنے سے اُن کے دل میں ایک قسم کا مذہبی غرور پیدا ہوجاتا تھا۔ مسیح نے فرمایا کہ تمہاری  نماز سچے دل سے ہونی چا ہیے اور" جب تو خیرات  کرے توجوتیرا دہنا ہاتھ کرتاہے اُسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے"  پس یہودی معلمانِ شریعت تولفظ اورحرف کا خیال رکھتے ہوئے مذہبی دیوانہ پن سے کام لیتے تھے ۔ لیکن مسیح نے اصل اور حقیقی معانی کی اہمیت  کا خیال رکھا۔ عہدِ عتیق  مسیح کے نزدیک ایک ایسی کتاب نہ تھی جوفقط الفاظ  حروف ، بیرونی احکام اور فرمانوں سے معمور تھی جن کی اطاعت  لازم ہوتی تھی بلکہ وہ ایک رہبر کی مانند تھی جس کو اس کے حقیقی  اورروحانی معنی کے سمجھے جانے کے بعد دل اورایمان قبول کرتے ہیں۔

          مسیح اوریہودی عالمانِ شریعت کے درمیان مذہبی طریقہ تعلیم میں ایک گہرا فرق تھا۔ یہی دینی معلم خیال کرتے تھے کہ پوشیدہ معانی سے واقفیت  حاصل کرکے وہ زہد وتقویٰ کی اعلیٰ ترین  منزل پر پہنچ گئے ہیں۔ وہ لوگوں کو مذہبی تعلیم دیتے ہوئے یہ کہتے تھے" مذہبی  مسائل پُر اسرار اُمور میں جو تمہاری عقل سے بالاتر ہیں۔ اُن کوفقط ہم ہی سمجھ سکتے ہیں لہذا جوکچھ ہم تم کوسکھاتے ہیں اسی کوقبول کرو" اوراس طور سے لوگوں سے کورانہ تقلید کی توقع رکھتے تھے۔ مسیح کے خیال تک میں ایسی بات کبھی نہ آئی تھی۔ اُس نے لوگوں کی عقل اوراُن کے فہم پر اثر کیا اورمذہبی دیوانگی اوریاکاری کی بیخکنی کرتے ہوئے اپنے پاک خیالات کا اظہار کیا۔ یہ امرِ قابل توجہ ہے کہ مسیح نے اپنے کلام کی مقبولیت کے لئے یہ نہ فرمایا"میں نبی ہوں اور خدا کا رسول ہوں یا میں وہ ہوں جس کی بہت پیشینگوئی کی گئی تھی ۔ پس میرے کلام کو قبول کرو"۔اس کو ان الفاظ کی ضرورت نہ محسوس ہوئی۔ اُس نے تمام حقائق قدرتی اورپاک طریقہ سے لوگوں کوسکھائے اوراُس نے لوگوں کو یہ صلاح دی کہ پاک دلی سے اُس کے کلام پرغور کریں۔اُس نے فصیح اور بلیغ تقریروں کے ذریعہ سے لوگوں کو اپنی جانب نہ کھینچا کیونکہ اُسے یہ معلوم تھاکہ کلام کی فصاحت لوگوں کوکھینچ تولاتی ہے ۔ لیکن اُن کے دلوں کوتبدیل نہیں کرسکتی۔اُس نے اپنے سادہ اورپاک کلام سے لوگوں کی رُوحوں پر اثر کیا۔یہ صحیح ہے کہ مسیح اپنی تعلیم کے آغاز میں آسمان پر کوئی نشان دکھاکر یاکسی بڑے معجزے کے ذریعہ سے اپنے آپ کوظاہر کرسکتا تھا۔لیکن اُس نے اس طریقہ کواختیار نہ کیا۔ بلکہ جب بعض نے ایسا نشان طلب کیا تاکہ وہ اُس پر ایمان لے آئیں تواُس نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔کوئی بڑا معجزہ ضرور ان کو حیران ومتعجب  کردیتا لیکن وہ محبت ورحمت کے خیال کی بنیاد نہ قائم کرتا۔مسیح کی یہ آرزو نہ تھی کہ وہ عجیب وغریب معجزے دکھاکر اپنے گرد انبوہ غفیر جمع کرکے اپنے معتقدوں  کا شمار بڑھائے بلکہ یہ کہ وہ لوگوں کی ضمیر  کو بدل ڈالے اوراُنہیں نئی زندگی عنایت کرے جومحبت  ورحمت  سے معمور ہو اور اُس کا فقط ایک ہی طریقہ  تھا یعنی دل پر اثر کرنے سے۔ مسیح کے معجزوں کا مقصد صرف یہ تھا کہ اپنی محبت اوراپنی شفقت کولوگوں پرظاہر کرے اوراس طرح اُن کے دل میں بھی محبت کے جذبات پیدا کرے اوراسی وجہ سے مسیح لوگوں کے لئے بیرونی اختیار کا علم لے کر نہ اُٹھا۔

          مسیح اکثر اوقات یہ الفاظ استعمال کرتاہے " خدا کی بادشاہی " اور بتاتا ہے کہ وہ خدا بادشاہی کی خبر دینے آیا ہے۔ اس سے اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ کسی ایسے عالم ارواح میں داخل ہوجائینگے جو زمین کے اُوپر ہے اورجہاں وہ ایسی زندگی بسرکرینگے جوغم ومصیبت سے خالی ہو۔ بلکہ وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ لوگ اپنے روزانہ کاروبار میں خدا کویاد رکھیں اوراس دنیا کو خدا کامسکن تصور کریں اور سقفِ الہٰی کے نیچے برادرانہ طریقہ سے مل جل کر زندگی بسر کریں۔خدا کی بادشاہی کے معنی ہیں اسی پُرانی دنیا میں رہتے ہوئے زندگی کوایک نئے نقطہ نگاہ سے دیکھنا ۔ اپنے ہمسایوں سے ملنا جلنا اوراُن کے ساتھ محبت اورخلوص  نیتی سے پیش آتا۔مصائب  کے وقت پست ہمت  نہ ہونا بلکہ اُن مصائب اورتکالیف میں نئی اخلاقی فتح کے موقعوں کا پانا۔ القصہ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس دنیا میں زندہ رہ کر گویا نئی ہستی کا جامہ پہنیں۔ زندگی کے اس اعلیٰ پایہ پر انسان جبر یا قہر الہٰی کے خوف سے یا فصیح کلامی یا بہ الفاظ دیگر بیرونی اختیار کے زور سے نہیں پہنچایا جاسکتا۔ بلکہ اس کے لئے خلوص نیتی سے لوگوں کے ساتھ  محبت کرنا اوراُن کے لئے اپنی جان قربان کرنا اوراُن کوایک نئی زندگی دکھاکر محبت اورنرمی سے اُنہیں اُس کی جانب کھینچنا ضرور ہے۔ یہی مسیح کی طاقت کاراز ہے اوراُس نے لوگوں کواِسی طریقہ سے اپنی جانب کھینچا ہے۔ اس کی طاقت ایک غیر معمولی اختیار کی تحکمانہ طاقت نہ تھی وہ ایک خلوص نیت اورپاک دل دوست کی قائل کرنے والی طاقت تھی۔ وہ  ایک مستنبدانہ طاقت نہ تھی بلکہ ایسی طاقت جودل پر اثر کرتی ہے۔

          یہ صاف عیاں ہے کہ اس لحاظ سے مسیح مذہبی تعلیم میں ایک اہم مرتبہ رکھتاہے وہ اس امر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے کہ گووہ کامل اختیار کامالک تھا توبھی اُس نےاس کے استعمال سے پرہیز کیا اور یوں لوگوں پر ناجائز قابو نہ پایا وہ ہر حالت اورہرموقع پر محبت اور سچائی کے ذریعہ سے انسان کے دل ودماغ پر اثر کرتا تھا۔ مذہب  کے دائرے میں مسیح کا حیرت انگیز اختیار اسی میں پایا جاتاہے۔ پس مذہب میں اور کونسا غیر فانی اقتدار واختیار  موجود ہوسکتاہے؟

          ممکن ہے کہ کسی وقت یہ کامل فصاحت کسی اور کامل ترفصاحت کی وجہ سے فراموش ہوجائے۔ زمانہ میں تبدیلی واقع ہوتی جاتی ہےلہذا کوئی بہتر شریعت آکر اس سابق شریعت کے اقتدار کومنسوخ کر دے۔ شائد کوئی ایسا وقت آجائے جب جدید عجائب کے مقابلہ میں قدیم معجزات کی کوئی قدرووقعت نہ رہے۔ لیکن سلامتی اورحق کا اقتدار ہمیشہ برقرار رہیگا۔حق کے اقتدار سے زیادہ کوئی اوراقتدار موثر نہیں۔اگر مذہب کا مقصد یہ ہے کہ مصبیت زدوں کوخوشی عنایت کرے۔

          مظلوموں کو دلیری بخشے۔ نااُمیدوں کواُمید عطا فرمائے اور وہ جو گناہ کی قید میں گرفتار ہیں اُن کو خلاصی بخشے۔ ظالموں کورحمدل بنائے۔بے انصافوں کوخود انکار بنائے اور ستمگروں کے دل کومحبت سے معمور کردے یا بہ الفاظ دیگر انسان کوحقیقی انسان بنائے اوراِس دنیا کوہمارے لئے ایک نیا عالم بنادے تواُس وقت مذہب میں حق ، اخلاق ، حلم اورمحبت کے اقتدار کے سوا اور کوئی اقتدار نہ ہوگا۔

          پس اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب کا یہ اندازہ نہ ہونا چاہیے کہ اُسے ایسے قواعد وقوانین کا مجموعہ سمجھیں جن کی کورانہ اطاعت لازم وواجب  ہے یا مذہب کوجابر انہ اقتدار اور غلامی تصور کریں اوراس طور سے اُس کے مخالف ہوجائیں۔بلکہ برعکس اس کے مذہب کو زندگی کا حقیقی معیار سمجھیں اور روشن ضمیری سے اُن اُصول کا ملاحظہ کریں جو مذہب زندگی کے لئے پیش کرتا ہے ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ انسان میں حق کے لئے دلی اُنس کا پایا جانا ایک اعلیٰ صفت ہے۔ اورمذہب کا صحیح اندازہ کرنا یہ ہے کہ صدقدلی اور اخلاص سے اس کی جانب متوجہ ہوں۔ مذہب کا اعلیٰ ترین مفہوم حق پرست ہونا اور زندگی کے لئے حق کواختیار کرلینا ہے۔اس حالت میں مذہب میں کوئی ایسی بات نہ ہوگی جوہمارے لئے کسرشان یا ہماری حیثیت کے خلاف ہوبلکہ وہ

کامل انسانیت کی ایک صورت ہے۔ پس ہر انسان مذہب دوست ہوسکتاہے کیونکہ ہماری انسانیت کامطالبہ ہے۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, خُدا, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (13115)
Comment function is not open
English Blog