en-USur-PK
  |  
09

نیک نیت کا کھیت

posted on
نیک نیت کا کھیت

GOOD INTENTION

نیک نیت کا کھیت

ایک دفعہ ایک یتیم لڑکا تھا جس کا نام نیک نیت تھا ۔ اس کی پرورش شہروں میں نہیں بلکہ دو پہاڑوں  کے درمیان اس کے چچا کے گھر میں ہوئی تھی۔ وہ نہ تو کبھی اسکول گیا تھا اور نہ ہی گھر پر کچھ سیکھ پایا۔ اس لئے بڑا ہوکر بھی وہ جاہل ہی رہا۔اس کے چچا نے بڑھاپے میں وفات پائی اور ایک مکان اور کھیت اپنے خاندان کے لئے چھوڑ گیا۔ نیک نیت اپنی چچی کے ساتھ جو اندھی اور بہری تھی رہنے لگا اور وہ بچاری نہ تو اسے کوئی صلاح دے سکتی تھی نہ ہی اس کی غلطیوں پر اسے تنبیہ کرسکتی تھی۔

جب ہل چلانے اور بیچ بونے کا وقت آیا تو نیک نیت نے سوچا "میں اپنے کھیت میں جو بوؤں گا اور انشا الله اچھی فصل پیدا کرکے اپنے کام میں کامیابی حاصل کروں گا۔ "

وہ فوراً بیج کی تلاش میں نزدیک کے کھیتوں میں گیا لیکن اسے زیادہ بیج نہ مل سکے ابھی وہ ہل جوتنے کی تیاری ہی کررہا تھا کہ کسی نے اس کے دروازے پر دستک دی نیک نیت نے دروازہ کھولا۔ ایک شخص اند رآیا اور سلام کرکے بیٹھ گیا جونہی نیک نیت نے سلام کا جواب دیا آنے والا بولا "میرا خیال ہے کہ تم مجھے نہیں جانتے میں تمہارا چیچرا بھائی ہوں اور تمہیں ملنے آیا ہوں۔"

لیکن نیک نیت نہ تو اسے جانتا تھا او رنہ ہی کبھی اس نے اپنے بھائی کے بارے میں سنا تھا دراصل تھا تو وہ اس کا چیچرا بھائی ہی لیکن عرصہ ہوا اس کے بد مزاجی کی وجہ سے اسے اس کے باپ نے گھر سے نکال دیا تھا اور اب وہ محض اس لئے آیا تھا کہ اپنے بھائی کو فریب دے کر اس نقصان پہنچائے۔ ہم اس "دغا باز" کے نام سے پکاریں گے۔

کچھ دیر بیٹھے رہنے کے بعد اس نے نیک نیت سے کہا " اب تمہارا کیا کام کرنے کا ارادہ ہے ؟"

اس نے جواب دیا " میں اپنے کھیت میں جو بونا چاہتا ہوں لیکن میرے پاس بیج کافی مقدار میں نہیں۔"

دغا باز نے ایسی نظروں سے اسے دیکھا جن میں شیطنت بھری ہوئی تھی لیکن نیک نیت کو کچھ بھی پتہ نہ چل سکا ،تب وہ بولا "

"میری ایک نصیحت سنوبیج کو کھیت میں بونے کی بجائے اسے اپنے ہی پاس جمع رکھو میں نے جگہ جگہ کاپانی پیا ہے اور عقل کے بہت سے بھید مجھ پر روشن ہوگئے ہیں۔ اگر تم قسم  کھا کر وعدہ کرو کہ یہ رازکسی سے نہیں کہو گے تو میں تمہیں ایک ایسی بات سکھاؤں گا جو تم جانتے ہی نہیں ۔"

نیک نے کہا "میں وعدہ کرتا ہوں کہ یہ راز کسی پر فاش نہ کروں گا "اب خدا کے لئے مجھے وہ بات سکھادو لو میں قسم کھاتا ہوں۔"

تب دغا باز نے کہا ۔

"مہینے کے وسط تک جب چاند پورا ہوگا، انتظار کرنا اپنی ٹوکری اٹھا کر صحرا میں نکل جانا اور کانٹے دار جھاڑیوں کے بیج جمع کرلانا ۔ اور پھر انہیں اپنے کھیت میں بودینا ۔ پھر شام کھانا کھانے کے بعد کھیت پر جاتا اور اس منتر کو جو اس نے اپنے بھائی سے دیکھا تھا پڑھا کرتا ۔

بارش کے دنوں کے بعد جب زمین خوب سیراب ہوگئی تو وہ  ہربار کھیت پرجاتا کہ شائد بیچ پھوٹ پڑے ہوں آخر ایک دن اسے اپنے کھیت میں ننھے ننھے پودے دکھائی دیئے جن کی پتیاں جو کی پتوں سے  بالکل مختلف تھیں پھر بھی وہ مایوس نہ ہوا اور اپنے دوست کے کہنے کے مطابق منتر پڑھتا ہی رہا۔ کچھ دنوں بعد اس نے دیکھا کہ اس کا کھیت چھوٹے چھوٹے کانٹے دار پودوں سے اٹاپڑا ہے۔ پھر بھی اپنی حماقت کی وجہ سے اس نے پرواہ نہ کی اور منتر پڑھنا جاری رکھا اور یہ بھی فیصلہ کرلیا کہ فیصلہ کرلیا کہ فصل پکنے تک وہ روزانہ منتر پڑھتا ہی رہے گا۔ آخر ایک ماہ گزرگیا۔ اس کے پڑوسی جمع ہوکر اس کے پاس کھیت میں آئے اورکہا "تمہارے کھیت کو کیا ہوگیا ہے ،اس میں کانٹوں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آیا؟"نیک نیت  نے کہا "ذرا صبر سے کام لو،اور دیکھتے جاؤ کہ میرے کھیت میں کیا کچھ ہوتا ہے۔"

سردیاں گزریں اور بہار کے دن آگے ،پڑوسیوں کی پکی ہوئی گندم کی فصل لہلہانے لگی، لیےلیکن بیچارے نیک نیت کاکھیت فصل سے خالی تھا۔ اس میں رنگ برنگ کے پھولوں  کے سوا جو کانٹے دار جھاڑیوں میں ان کے خشک ہونے سے پہلے نمودار  ہوتے ہیں پکنے والی اور کوئی چیز تھی ہی نہیں۔ اس کے دوست اس کا مذاق اڑانے لگے۔ اور اس ڈرسے کہ کہیں اس کے کھیت کے کانٹے دوسرے کھیتوں میں نہ پھیل جائیں اسے جلد از جلد  اپنی فصل کاٹنے کو کہنے لگے۔ لیکن نیک نیت نے ان کی ایک نہ مانی آخر کار گاؤں کے نمبر دار جمع ہوئے اور سوچنے لگے  کہ اگر ہم اس احمق لڑکے کو یہ کانٹے دار جھاڑیاں جمع کرنے کے لئے مجبور نہ کریں تو وہ اِدھر اُدھر  پھیل کر ہمارے کھیتوں کو بھی برباد کردیں گی جس کا نتیجہ ہمارے حق میں برا ہوگا۔ کیوں نہ اس کی شکایت قاضی سے کریں۔

اگلے دن منڈی لگی تو قاضی صاحب بھی تشریف لائے۔ گاؤں کے لوگ مل کر قاضی صاحب کے حضور پہنچے اور نیک نیت کی شکایت کی۔ قاضی صاحب نے نیک نیت کے حاضرکئے جانے کا حکام دیا۔ جب نیک نیت آیا تو قاضی صاحب بولے ۔

"بیٹا یہ لوگ تمہاری شکایت کررہے ہیں ۔ تم نے اپنے کانٹوں کی فصل جمع کرنے میں اتنی دیر کیوں کردی؟"

نیک نیت نے جواب دیا "خصور میں جلد ہی جمع کر لوں گا ،بات دراصل یہ ہے کہ  پندرہ دن کے بعد یہ کانٹے پک پکا کر جو میں تبدیل ہوجائیں گے ۔"

قاضی صاحب نے کہا " یہ تم کیا بک رہے ہو؟کیا کانٹے جو میں تبدیل ہونے والے ہیں؟"کیا مطلب ہے تمہارا ؟

تب وہ نوجوان خوفزدہ ہوگیا اور اس نے پوری داستان اول سے آخر تک قاضی صاحب کو کہہ سنائی کہ کس طرح دغا باز نے  اپنی مکاری سے اسے فریب دیا۔ یہاں کہ نیک نیت نے پورے کا پورا منتر بھی پڑھ کر سنادیا۔

یہ داستان سن کر قاضی صاحب بولے ۔

"بیٹا خدا نے بعض قانون ایسے بنائے ہیں کہ نیچر کو ان کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے ۔ یہ قوانین ہر گز نہیں بدلتے ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی جو بوتا ہے ،وہی کاٹتا ہے ۔ اب کسی آدمی کے منتر سے یہ قانون نہیں بدل سکتا ۔ خواہ اس منتر کو ہزاروں دفعہ دہرایا جائے ۔ اب تم اپنی کدال اٹھا ؤ اور جلدی سے اپنے کھیت میں جاکر تمام جھاڑیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکو اور سب کو جمع کرکے بیجوں بیچ ڈھیر لگا دو۔ جب یہ کام ختم ہوجائے تو انہیں آگ لگاد و۔ اور جب تک وہ ڈھیر راکھ میں تبدیل نہ ہوجائے ،آگ نہ بجھنے دو۔ میں ایک نوکر تمہارے ساتھ بھیجو ں گا تاکہ وہ دیکھ سکے کہ تم نے میرے کہنے کے مطابق عمل کیا ہے یا نہیں؟اور ہاں اگلے سال اس قسم کی احمقانہ باتوں پر توجہ نہ دینا۔ "

نیک نیت نہایت ہی پیشمان ہوا،اسے دھوکا دیا گیا تھا اور وہ اس فریب او راپنی ناکامی کے باعث رنجیدہ تھا۔ اس نے ایک سر د آہ بھری لیکن قاضی صاحب کے حکم کو تو کسی طرح ٹالا ہی نہ جاسکتا تھا۔ لہذ ا بچارا کھیت میں جاکر کانٹے دار جھاڑیاں اکھاڑنے لگا ۔یہاں تک کہ اس کے ہاتھ اور پاؤں لہو لہان ہوگئے ۔ کانٹے بونا آسان تھا لیکن کھودنا اور جمع کرنا تکلیف  وہ ثابت ہوا اور اس کی ساری محنت کا ثمر صرف راکھ  کے ایک ڈھیر سے زیادہ نہ تھا۔

کہانی کا مطلب ۔

قاضی صاحب نے جو کچھ کہا حق تھا اور یہ صرف مادی یا جسمانی چیزوں کے لئے ہی حق نہ تھا بلکہ روحانی اعتبار سے بھی حقیقت سے لبریز تھا ۔ بائبل شریف میں گناہ کا بیج بونے کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔

"آدمی جو کچھ بوتاہے وہی کاٹتا ہے ۔"

آپ سے درخواست ہے کہ آپ ان الفاظ کی گہرائیوں تک پہنچنے کی کوشش کیجئے اور اس حقیقت کا اپنے تجربے سےمقابلہ کیجئے تاکہ آپ بھلے اور برے میں تمیز کرسکیں آپ اپنی جوانی کےدنوں سے لے کر اب تک کے گناہ بوتے رہے ہیں اور تقصیریں اگاتے رہے ہیں ، کتنے برے فعل آپ نے انجام دیئے ہیں اور کتنے برے الفاظ آپ کی زبان سے نکلے ہیں ۔ دراصل یہ سب کے سب زمین میں چھپے ہوئے بیجوں کی طرح ہیں یقینا ً انہیں ایک دن اگنا ہے او راپنی اصل کے مطابق پھل لانا ہے فصل کاٹنے کا دن جلد ہی آن پہنچے گا اور جو کچھ آپ نے بویا ہے آپ کو کاٹنا پڑے گا۔

حالانکہ فصل کاٹنے کا دن ابھی نہیں آیا لیکن آپ نے جو کچھ بویا ہے وہ پھوٹ پڑا ہے اور اس کا پتیاں نکل آئی ہیں جن سے ظاہر ہے کہ فصل کیسی ہوگی۔ تباہی جو آپ کی سزا ہے پہلے ہی آپ پر آن پڑی ہے ۔ آپ نے سستی بوئی،اور وہ مفلسی اور احتیاج کی شکل میں پھوٹ نکلی،آپ نے دشمنی بوئی اور وہ نفرت اور چوری کی صورت میں نمودار ہوگئی۔ آپ نے غرور بویا اور اس کا پھل آپ کو حماقت او رنکمی شان کی شکل میں ملا۔ آپ نے گندگی اور نشے بازی بوئی اور اس کے نتیجے میں آپ کو بے عزتی اور شرمساری اٹھانا پڑی۔آپ نے نے عدم محبت کے بیج بوئے اور وہ قہر اور دشمنی کی صورت میں پھوٹ نکلے  ۔ اب آپ اپنی آنکھوں سے اپنی بری فصل کا پھل دیکھ رہے ہیں اور پھر بھی نیک نیت کی طرح امید رکھتے ہیں کہ چند جملے منتر کے طور پر دہرانے سے کانٹے جو میں تبدیل ہوجائیں  گے ۔ نیک نیت اپنی لاپرواہی کے باوجود بھی پودوں  کی پتیاں دیکھ کر جان گیا تھا کہ اس  کی نیک نیتی بھی اس کے بوئے ہوئے بیجوں میں کوئی تبدیلی پیدا نہ کرسکی تھی۔

آپ ہوشیاری سے کام لیجئے اور غور کیجئے کہ اب تک آپ جو کچھ بوتے رہے ہیں اس کا کیا پھل آپ کو ملتا رہا ہے۔ بعض رٹے رٹائے مذہبی جملے دہرانے کا کیا نتیجہ آپ نے پایا؟ کیا آپ کا یہ عمل دنیا میں آپ کے کاموں کے برے نتیجوں سے محفوظ رکھے گا؟

اگر نہیں تو پھر فصل کٹنے کے دن کس طرح ان سے محفوظ رکھ سکے گا جبکہ بوئے ہوئے بیج اگ چلے ہو ں گے اور فصل پک چکی ہوگی۔ جھوٹی باتو ں سے بچئے اور دشمن کے مکرو فریب میں گرفتار نہ ہوجئے۔ خدا نے فرمایا ہے (اور اس کا کلام پورا ہوکر ہی رہتا ہے ) کہ دنیا کے آخر میں فصل کاٹنے کا ایک عظیم دن ہوگا اور سب لوگ جیسا بھلا یا برا بو ئیں گے ویسا کاٹیں گے ،اسی طرح جیسے نیک نیت کو کانٹوں کی فصل کانٹی پڑی۔

اب آپ اپنی حالت پر نظر ڈالئے اور اپنے دل سے گناہ کے بیجوں کو صاف کرنے کا کوئی وسیلہ ڈھونڈنے کی کوشش کیجئے۔اگر آپ جیسا کہ ظاہر ہے اس قابل نہیں ہیں۔ تو یہ خوشخبری سنیئے کہ پاک صاف ہونے کا ایک وسیلہ ہے اور نجات کا ایک دروازہ موجود ہے۔آپ یقین کیجئے کہ خواہ گناہ آپ کے دل کی گہرائیوں تک پہنچ چکا ہو اور اس کے بیج آپ کے دل کی تہوں میں ہر طرف بکھر چکے ہوں یہاں تک کہ ان سے خلاصی پانا ناممکن سا نظر آتاہوتب بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ،کیونکہ ایک نجات دینے والا مسیح موجود ہے وہ آپ کو آپ کے گناہوں سے بچانے اور انہیں آپ کے دل سے باہر نکال پھینکنے پر قادر ہیں۔ خدا نے جو محبت کا خدا ہے ۔ انہیں اسی لئے اس گناہ آلودہ دنیا میں بھیجا ہے ۔

انجیل شریف میں ان کی نسبت لکھا ہوا ہے ۔

"دیکھو یہ (مسیح ) خدا کا برہ ہے جو جہان کے گناہوں کو اٹھا لے جاتاہے ۔"

جیسے آ پ فصل جمع کرنے کے آنے والے دن کو ملتوی کردینے کی قدرت نہیں رکھتے اسی طرح آپ سچ مچ بدی کے بیجوں کو جو آپ کے دل کی گہرائیوں تک پہنچ چکے ہیں اکھاڑ پھینکنے  کے ناقابل ہیں ۔لیکن جناب مسیح اپنی صلیبی موت کے باعث جو انہوں نے ہم سب کی خاطر برداشت کی،آپ کو آپ کے تمام ظاہر اور پوشیدہ گناہوں سے پاک وصاف کرنے کی کافی قدرت رکھتے ہیں اور حشر کے دن خدا سے شفاعت کرکے آپ کے گناہ بخشواسکتے ہیں۔ وہ آپ کے دل کے کھیت میں سے گناہ کے کانٹے اکھاڑ کر ان کی جگہ اچھے بیج مثلاً محبت ،پاکیزگی ،وفاداری اور سچائی بونا چاہتے ہیں۔ تب آپ نے اپنے ارد گرد رہنے والوں کے لئے برکت کا باعث بن جائیں گے اور آخر کار اپنے بوئے ہوئے بیجوں کی فصل کوہنسی  خوشی کاٹیں گے۔

اس سے پہلے کہ سنہری موقع ہاتھ سے نکل جائے آپ اس طرف توجہ دیجئے ۔ اپنے دشمن کی مکر وفریب سے بھری ہوئی باتوں پر یقین نہ کیجئے وہ تو آپ کو دھوکا دینا چاہتا ہے تاکہ آپ بھی یقیں کرلیں کہ چند رٹی رٹائی باتیں دہرانے سے یا مذہبی رسوم بجا لانے سے آپ اپنے بوئے ہوئے بیجوں کی فصل کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ لیکن خدا کی قدرت اور محبت  جو اس نے اپنے مقدس کلمہ "مسیح " میں ہم پر نازل فرمائی ہے۔ آپ کو پاک وصاف کرسکتی ہے اور نیک اعمال کے لئے آپ کو نئی زندگی دے سکتی ہے۔ وہ آپ کو ایسی قدرت بخش  سکتی ہے کہ آپ خدا اور انسان ہر دو کے ساتھ محبت سے زندگی گزا رسکیں  خدا کو موقع دیجئے  کہ وہ پر فضل کام آپ میں انجام دے سکے۔



Posted in: مسیحی تعلیمات, خُدا, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, نجات, اسلام, غلط فہمیاں | Tags: | Comments (0) | View Count: (22527)
Comment function is not open
English Blog