en-USur-PK
  |  
22

گناہ

posted on
گناہ

گناہ

نجات اور طریقہ نجات کو سمجھنے سے پیشتر گنُاہ کی نوعیّت کو سمجھنا ضُروری ہے- کیونکہ جب یہی معلوم نہیں کہ گناہ کیا ہے تو اِس کی مُعافی کے بارے میں کیا کیا جاسکتا ہے- اِسی لئے کتابِ مُقدّس یعنی بائبل کے شروع میں پہلے انسان کے گناہ کا تزکرہ ہے-

اِن ابتدائی ابواب میں بتایا گیا ہے کہ کِس طرح خدا تعالٰی نے زمین و آسمان کو خلق کیا اور آخر میں اشرف المخلوقات کو پیدا کیا- خدا نے آدم وحوا کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ باغِ عدن کے ہر درخت کا پھل کھاسکتے ہیں- لیکن ایک درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا- جب شیطان کو معلوم ہُوا کہ آدم اور حوا کو کیا احکامات دیئے گئے ہیں تو اُس نے اُنہیں بہکانے اور راہِ راست سے ہٹانے کی سکیم تیار کی- خدا تعالٰی نے انہیں کہا تھا کہ تم باغ کے ہر درخت کا پھل بِلا روک ٹوک کھاسکتے ہو لیکن نیک وبد کی پہچان کے درخت کا پھل نہ کھانا کیونکہ جس روز تم کھاؤ گے مرجاؤ گے- لیکن شیطان نے اِس کے برعکس اُنہیں یہ کہا کہ تم ہرگز نہ مروگے- خدا جانتا ہے کہ جس روز تم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تُم خُدا کی مانند نیک وبد کے جاننے والے بن جاوگے- دوسرے الفاظ میں شیطان کا مطلب یہ تھا کہ خُدا تمہاری آزادی غصب کرنا چاہتا ہے- وہ تمہیں اپنا غلام بناکر رکھتا چاہتا ہے- تمہاری کامیابی کا راز اِسی میں مضمر ہے کہ تم اُس سے بغاوت کرو اور اُس درخت میں سے کھالو-

حضرت حّوا، اِس شیطانی فلسفے کا شِکار ہوگیئں- اور بعد میں حضرت آدم نے بھی حضرت حوا کی طرح خدا کے حکم کی خلاف ورزی کی اور اُس درخت کے پھل میں سے کھالیا- اُس کے کھاتے ہی اُن دونوں کی آنکھیں کُھل گیئں اور انہیں اپنے ننگے پن کا احساس ہُوا-

اِس واقعہ کو بیان کرکے بائبل مُقدّس نے گناہ کی ماہیّت پر روشنی ڈالی ہے کہ گناہ دراصل خدا سے بغاوت کا نام ہے- یہ اُس قلبی حالت کا نام ہے جب انسان اپنے آپ کو خدا کی عائد کردہ پابندیوں سے آزاد سمجھنے لگتا ہے، جب انسان خدا کو اپنے دل کے تخت سے ہٹا کر اُس کی جگہ خود بیٹھ جاتا ہے- ہم اسے آسان الفاظ میں یُوں بیان کرسکتے ہیں کہ گناہ خدا کے حکم کی عدولی ہے- گناہ وہ عظیم بغاوت ہے جِس کے تحت انسان اپنے آپ کو خدا بنانے کے خواب دیکھنے لگتا ہے- اس خواب کی تعبیر بہت بھیانک ہے- جس طرح آدم اور حوا باغ عدن سے نکال دیئے گئے اُسی طرح اس خواب کی تعبیر خدا کے حضور سے اخراج ہے- یہ جیتے جی جہنم کا سفر ہے-

قارئین کرام ! جب ہمارے جدِامجد حضرت آدم نے بہترین حالات میں بدترین فیصلہ کیا تو ہم سے جو اِتنے اچھے حالات میں نہیں رہ رہے کس طرح بہتر فیصلے کی توقع کی جاسکتی ہے؟ بیٹے اپنے باپ کی ذات کا عکس ہوتے ہیں- جس طرح باپ نے اِنتہائی نازک موڑ پر غلط فیصلہ کیا، اسی طرح بیٹے کرتے ہیں- ہماری زندگیاں مجسم بغاوت ہیں- پس ہمارے جرمِ بغاوت کی صرف ایک ہی سزا ہوسکتی ہے اور وہ ہے موت اور صرف موت- اس سے کم سزا ہمارے لئے تجویز ہی نہیں کی جاسکتی-

آئیے اب ہم حقیقت کے آئینے ذات کا عکس دیکھیں- پیدائش سے لے کر موت تک ہماری زندگی بغاوت کی ایک مسلسل کہانی ہے- بچپن میں ماں باپ کی فرمانی، زمانہ طالب علمی میں اساتزہ کی حکم عدولی، جوانی میں قانون سے انحراف اور بڑھاپے میں پھر بچپن کا اعادہ- آخر یہ سب کیا ہے؟ کیا اِس بات کا بیّن ثبوت نہیں کہ گناہ ہماری گھُٹی میں پڑا ہے؟ ہم گناہ میں پیدا ہوتے ہیں اور گناہ میں مر جاتے ہیں- ہم میں سے ہر ایک کے چہرہ پر بڑے بڑے حروف میں لکھا ہے گنہگار انسان - خدا کے احکام کی تعمیل کرنا ہمارے لئے بڑا مشکل ہوتا ہے جبکہ نا فرمانی ہم سے خود نجود سرزد ہوتی رہتی ہے- برائی ہمارے لئے فطری عمل ہے اور نیکی ماورائے فطرت- اِس حالت کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے پولس رسول فرماتے ہیں:

          ہم جانتے ہیں کہ شریعت تو رُوحانی ہے مگر میں جسمانی اور گناہ کے ہاتھ بکا ہُوا ہوں- اور جو میں کرتا ہوں اُس کو نہیں جانتا کیونکہ جس کا میں ارادہ کرتا ہوں وہ نہیں کرتا بلکہ جس سے مجھ کو نفرت ہے وہی کرتا ہوں- اور اگر میں اُس پر عمل کرتا ہوں جس کا ارادہ نہیں کرتا تو میَں مانتا ہُوں کہ شریعت خوب ہے- پس اس صورت میں اُس کا کرنے والا میں نہ رہا بلکہ گناہ ہے جو مجھ میں بَسا ہُوا ہے- کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں- البتہ ارادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے- چنانچہ جس نیکی کا ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا اُسے کرلیتا ہوں- پس اگر میں وہ کرتا ہوں جس کا ارادہ نہیں کرتا تو اس کا کرنے والا میَں نہ رہا بلکہ گناہ ہے جو مجھ میں بَسا ہُوا ہے- غرض میں ایسی شریعت پاتا ہوں کہ جب نیکی کا ارادہ کرتا ہوں تو بدی میرے پاس آموجود ہوتی ہے- کیونکہ باطنی انسانیت کے رُو سے میں خدا کی شریعت کو بہت پسند کرتا ہوں- مگر مجھے اپنے اعضا میں ایک اور طرح کی شریعت نظر آتی ہے جو میری عقل کی شریعت سے لڑکر مجھے اُس گناہ کی شریعت کی قید میں لے آتی جو میرے اعضا میں موجُود ہے- ہائے میں کیسا کمبخت آدمی ہوں: اِس موت کے بدن سے مجھے کون چُھڑائے گا؟ ) رومیوں – (24-14 : 7

جب پہلے انسان کے پہلے گناہ نے اُس پو مَوت کی مَہرثبت کردی تو خدا نے موت سے رہائی کا راستہ بھی مہیا کردیا اور وہ راستہ یسوع مسیح ہے- نوعِ انسان سے اس کی مختلف پیدائش اُس کی منفرد ذات کی آئینہ دار ہے- وہ جو ہم جیسا ہوتے ہوئے بھی ہم سے مختلف تھا، ہمیں بچانے کے لئے آیا- پہلے انسان نے خدا کے حکم کی عدولی کرکے موت کمائی- لیکن مسیح نے خدا کی فرمانبرداری کرکے اُس موت کو مغلوب کیا اور اُس پر فتح کا شادیانہ بجایا اور یوں اپنے ماننے والوں کے لئے زندگی فراہم کی- 

Posted in: مسیحی تعلیمات, خُدا, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (20145)
Comment function is not open
English Blog