en-USur-PK
  |  
02

عیسیٰ مسیح کی صلیبی شہادت اورآپ کا دوبارہ زندہ ہوجانا

posted on
عیسیٰ مسیح کی صلیبی شہادت اورآپ کا دوبارہ زندہ ہوجانا

عیسیٰ مسیح کی صلیبی شہادت اورآپ کا دوبارہ زندہ ہوجانا

علامہ پال ارنسٹ

Crucifixion & Resurrection of Jesus Christ

A Reply to Objection of Book by Mulwai Muhammad Ali

Muhammad and Christ

مولوی محمد علی صاحب مرحوم سابقہ امیر جماعت احمدیہ لاہور   اپنی کتاب "محمد اینڈ کرائسٹ میں لکھتے ہیں کہ " اُس طور وطریقہ میں جس طرح ہمارے مقدس  دشمنوں کے ہاتھوں  میں پڑنے سے بچائے گئے ایک خاص بات جواُسے سیدنا مسیح سے ممیز کرتی ہےوہ ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے ہاتھوں میں کبھی نہ پڑے اوراُس طرح سے کبھی ذلیل نہ کئے گئے ۔جس طرح یسوع کیا گیا تھا۔ جو لعنتی صلیبی موت سے توبچالیا گیا تھا مگر دشمنوں کے ہاتھوں میں ایسے پورے ہاتھ سے پڑا کہ وہ ایسے آدمی کے مشابہ ہوگیا جو فی الحقیقت پر مرگیا ہو"۔

جواب۔

 دشمن کے مقابلہ کی قدرت نہ ہونے کے باعث بچ کر بھاگ جانا اور بات ہے اورخدا کی راہ میں خدا کی   اطاعت کی خاطر  دشمنوں کے ہاتھوں پڑنا بالکل اور بات۔  خدا کی راہ میں دشمنوں کےہاتھوں میں پڑنا اُن کے ہاتھوں میں پڑنے سے بدرجہا افضل ہے اور سیدنا مسیح کا خدا کی راہ میں دشمنوں کے ہاتھوں پڑنا بچ کر بھاگ جانے سے نہایت ہی افضل ہے۔ سیدنا مسیح عدمِ قدرت  کے باعث دشمنوں کے ہاتھوں نہیں پڑے تھے بلکہ خدا کی اطاعت کی  قدرت ہونے کے باعث دشمنوں کے ہاتھوں میں پڑے تھے اوراُن میں صرف رضائے الہٰی ہی کو پورا کرنے کی بات نہیں تھی۔ اُس میں دشمن کے ہاتھوں سے بچ جانے کی قدرت بھی تھی۔ جب دشمن کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہ ہو تویہ دیکھ کر دشمن کے ساتھ ہمارا کوئی بس نہیں چلے گا۔ آدمی اُن کے سامنے سے اوراُن کےپاس سے بھاگ جایا کرتے ہیں۔ سیدنا مسیح نے اس فضیلت پر لات مارکر مردانہ وار دشمن کے سامنے جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔اُس نے خدا کی مرضی پوری کرنے کے لئے اپنے آپ کو بڑی اخوت  کے ساتھ دشمن کے حوالہ کردیا۔ آخری کھانے کے بعد وہ یروشلیم سے بھاگ جانے کی بجائے گتسمنی باغ کوگئے اور باغ میں دشمنوں کے آنے سے پہلے اپنے باپ(یعنی پروردگار) سے اُس سب سے آنے والی آزمائش پر فتح پانےکے لئے دعا کرتے رہے اور دشمنوں کے آنے کی آہٹ پاکر باغ کے سائے میں چپکے چپکے وہاں سے نکل کر بھا گ جانے کی بجائے وہ الہٰی مرضی کی مطابقت اور اطاعت میں اپنے دشمنوں کے پاس گئے اوراُنہیں یہ بتاکر کہ میں باغ میں ہی ہوں اُسی وقت اُن سب کو گرادیا۔ ملاحظہ ہو" یسوع اُن سب باتوں کو اُس کے ساتھ ہونے والی تھیں جان کرباہر نکلا اوراُن سے کہنے لگا کہ کسےڈھونڈھتے ہو؟اُنہوں نے جواب دیا ۔یسوع ناصری کو۔ یسوع نے اُن سے کہا میں ہی ہوں اوراُس کو پکڑوانے والا یہوداہ اُن کے ساتھ کھڑا تھا۔ اُس کے یہ کہتے ہی کہ میں ہی ہوں وہ پیچھے ہٹ کر زمین  پر گرے پڑے"(یوحنا 18: 67)۔ یسوع نے میں ہوں کہہ کر اپنی الہٰی قدرت سے اُن سب کوپیچھے کی طرف یعنی اُن کے چاروں شانے چت گرادیا۔ ۔۔۔۔اُس نے اُنہیں دیکھا کہ تم مجھے اپنی طاقت سے گرفتار نہیں کرسکتے۔ میں اپنی رضا مندی سے اپنے آپ کو گرفتار کراتاہوں۔ وہ پھر اٹھے اوراُس وقت مقدس پطرس نے تلوار چلا کر سردار کاہن کے ایک نوکر ملخس کا کان اڑادیا۔ یسوع نے اُس کا کان اُس کی جگہ پر پہلے کی طرح پھر لگادیااوریوں کرنے سے ایک دفعہ پھر اپنی قدرت ثابت کردکھائی اوردشمنوں سے محبت کی ۔اُس وقت آپ نے مقدس پطرس سےفرمایاکہ" کیا تو نہیں سمجھتا کہ میں اپنے باپ سے منت کرسکتا ہوں اور وہ فرشتوں کےبارہ تمن سے زیادہ میرے پاس ابھی موجود کردےگا؟ مگر وہ نوشتے کویونہی ہونا ضرور ہے کیونکر پورے ہوں گے"(متی 26: 53تا 54)۔ یعنی مجھے تیری یا کسی اور کی تلواروں کی مدد کی ضرورت نہیں۔ اگرمجھے مدد کی ضرورت ہو تو میرا باپ فرشتوں کی بارہ فوجوں سے بھی زیادہ میری امداد اور میرے بچا ؤ کے لئے ابھی ضرور کردے گا۔ لیکن مجھے اپنا بچاؤ کرنا اوراپنے بچاؤکے لئے فرشتوں کی مدد لینا منظور نہیں۔ مجھے تواپنے باپ کی مرضی پوری کرنا منظور ہے جواُس نے نوشتوں میں ظاہر فرمائی ہوئی ہے۔اپنے باپ کی مرضی کو پورا کرنا اُس نے ان الفاظ میں فرمایاکہ " جو پیالہ باپ نے مجھے دیا ہے کیا میں اُسے نہ پیوؤں"(یوحنا 11: 18)۔ یسوع نے اُس فضیلت کواختیار کیا جس کے بارے میں لکھا ہے کہ" بعض مارکھاتے مارکھاتے مرگئے مگر رہائی منظور نہ کی تاکہ اُنکو بہتر قیامت نصیب ہو۔ بعض ٹھٹھوں میں اڑائے جانے اور کوڑے کھانےبلکہ زنجیروں میں باندھے جانے اور قید میں پڑنے سے آزمائے گئے سنگسار کئے گئے۔ آرے سے چیرے گئے۔ آزمائش میں پڑے تلوار سے مارے گئے۔ بھیڑوں اوربکریوں کی کھال اوڑھے ہوئے محتاجی میں مصیبت میں بدسلوکی کی حالت میں مارے مارے پھرے۔دنیااُن کے لائق نہ تھی اورجنگلوں اور پہاڑوں اور غاروں اور زمین کے گڑھوں میں آوارہ پھراکئے"(عبرانیوں 11: 35تا 38)۔

          مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ آپ اُس طرح سے کبھی ذلیل نہ کئے گئے جس طرح یسوع کیا گیا تھا۔

          جواب۔

 یہ مرزائی نہیں جانتا کہ خدا کی راہ میں بُروں سے ذلیل کیا جانا حقیقی ذلت نہیں بلکہ خدا کی نظر میں سرفرازی پاناہے۔ وہ جو برُون سے ذلیل کیا گیا تھا اُسی کوخدا نے اپنے دہنے ہاتھ سے سربلند کیا"(اعمال 2: 33)۔ وہ مُردوں میں سے جی اٹھا اورخدا کے دہنے ہاتھ جا بیٹھا"خداوند یسوع مسیح اُن سے کلام کرنے کے بعد آسمان پر اٹھایا گیا اورخدا کی دہنی طرف بیٹھ گیا"(مرقس 16: 19)۔ مرزائی صاحبان بتائیں کہ یہ سربلندی عزت وعظمت اورکس کونصیب ہوئی ہے۔اس کی مثال محض ناپئید ہے۔ اگر بعض لوگوں کوخدا کی راہ میں مرنا نہیں پڑا یعنی اُنہیں خدا کی راہ میں جان دینی نصیب نہ ہوئی تواُنہیں مرکر تیسرے دن جلالی قیامت سے آسمان پر جانا اورخدا کے دہنے ہاتھ بیٹھنا بھی نصیب نہیں ہوا۔ یسوع کا مردوں میں سے جلالی جی اٹھنا آسمان پر جانا اور خدا کے دہنے ہاتھ سرفراز ہونا بے مثل ہے اوراپنی مثال آپ ہے۔ اس عظمت وشان میں اُس جیسا کوئی نہیں۔ بُروں سے ذلت پانا جاہلوں اور احمقوں سے عزت پانے کے برابر ہے بلکہ بہتر ہے۔ جاہلوں سے عزت پانا بھی ذلت ہی ہے اور ذلیل ہونا ہی ہے۔

          مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ مسیح اگرچہ لعنتی موت سے بچالیا گیا تھا مگر وہ دشمنوں کے ہاتھوں میں ایسے پورے طورپر پڑا کہ وہ ایسے آدمی کے مشابہ ہوگیا جو فی الحقیقت  صلیب پر مرگیا ہو۔

          جواب۔مسیح کی موت لعنتی موت کیسے ہوسکتی ہے؟ وہ توراستباز تھا اوراُس نے خدا کی راہ میں جان دی لہذا اس کی موت راستبازوں کی موت تھی اور راستبازوں کی موت اورخدا کی راہ میں موت مبارک موت ہوتی ہے۔ بدیں وجہ یسوع کی موت لعنتی موت نہیں بلکہ مبارک تھی۔ (بلکہ وہ مجھ اورآپ جیسے لعنتیوں ) یعنی گنہگاروں کے گناہوں کے عوض مراتاکہ لعنتیوں کولعنت سے چھڑا کر راستباز بنائے اوراُن کو راستبازوں کی مبارک موت مرنے کے لائق بناۓ ۔ اس لحاظ سے بھی اُس کی موت مبارک موت تھی۔

          مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ وہ ایسے آدمی کے مشابہ ہوگیا جوفی الحقیقت صلیب پر مرگیا۔

          جواب۔

یہ سچ ہے کہ وہ اُسی آدمی کے مشابہ ہوگیا تھا جوفی الحقیقت صلیب پر مرگیا ہو۔ وہ اُس آدمی کے مشابہ نہیں ہوا تھا جوفی الحقیقت صلیب پر بے ہوش ہوگیاہو۔ ایسی بات کوئی بے ہوش ہی کہہ سکتاہے۔ وہ ایسے ہی مشابہ ہوگیا تھا جیسے مرزا صاحب 26 مئی 1908ء کوصبح دس بجے اور مولوی صاحب بذات خود 1952ء کو ایسے آدمی کے مشابہ ہوگئے جوفی الحقیقت مرگیا ہو۔اورہرمرزائی کسی نہ کسی دن ایسے آدمی مشابہ ہوتاآیاہےجوفی الحقیقت مرگیا۔اورتاقیامت کوبھی ایسا ہوکر رہناہے۔ مرزائیوں کی مشابہت ایک بات میں مسیح کی مشابہت میں بڑی ہوئی ہے۔ اوروہ اس بات میں کہ مسیح نہ توعالم ارواح میں چھوڑئے گئے اورنہ اُن کے بدن کے سڑنے کی نوبت پہنچی۔ بلکہ خدا نے آپ کوزندہ کیا اورآپ خدا کے دہنے ہاتھ سے سربلند ہوا۔ مگرمرزا صاحب اور مولوی صاحب اوران کی سی مشابہت کئے ہوئے مرزائی ایسے آدمی کے مشابہ ہوگئے جوعالم ارواح میں چھوڑا جاتاہے۔ جس کے سڑنے کی نوبت پہنچتی ہے جوموت کے بند میں بندھ رہتاہے جس کا بدن مٹی ہوجاتاہے اور باقی کے سب مرزائیوں کوبھی یہی مشابہت حاصل ہونے کو ہے۔

          مولوی صاحب آنحضرت صلعم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ " ایک لڑائی میں آپ زخمی ہوگئے لیکن دشمن آپ پر اپنا ہاتھ نہ ڈال سکے الہٰی حفاظت آپ کے ساتھ اُس حفاظت سے بدرجہا زیادہ رہی جو یسوع مسیح کے ساتھ تھی"۔

          جواب۔

کسی کو دُور سے گولی مار کر تیر مار کر ہلاک کردینا اُس پر ہاتھ ڈالنا نہیں ہوتا ؟اگر یہ دُور سے ہاتھ ڈالنا ہے تو دُور یا نزدیک سے بھی ہاتھ ڈالنا ہے۔ دُور سے گولی یا تیرسے ہلاک ہونے والے کے بارے میں کہنا اُس پر دشمن ہاتھ نہیں ڈال  سکا ایسا ہی ہے جیسے ہوائی جہاز کسی شہر یا بمباری کرکے چلے جائیں تومولوی صاحب کی سی سمجھ والے اخبار نویس یہ لکھ دیں کہ دشمن کے جہازوں نے بمباری کرکرکے گوشہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے مگر وہ اہل دشمن پر ہرگز ہاتھ نہیں ڈال سکے۔یا یہ ایسی حفاظت ہے اورایسا ہاتھ نہ ڈال پائیں ہیں جیسے ایک آدمی کی کنپٹی پر لاٹھی ماری گئی تھی اور وہ اُس کی ضرب سے بچ گیا تھا۔ مولوی صاحب جیسی سمجھ والی ایک ہمدرد عورت  نے کہا کہ لاٹھی کنپٹی پر لگی ہے شکر ہے کہ آنکھ بچ گئی ہے۔ پس خواہ کوئی دُور سے گولی یا تیرسے زخم کرے نزدیک سے تلوار سے زخمی کرے زخمی کرنے میں کامیاب ہوجانا ہاتھ ڈالنا ہی ہے۔ مگر مولوی صاحب اپنادل  یوں بہلاتے ہیں  اور دوسروں کو دھوکا یوں دیاہے یہ ہاتھ ڈالنا نہیں ہے توکیا ہاتھ ڈالنے کے سر پر سینگ ہوا کرتے ہیں۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, خُدا, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, نجات, اسلام, غلط فہمیاں | Tags: | Comments (0) | View Count: (22786)
Comment function is not open
English Blog