en-USur-PK
  |  
Category
24

کفر ناحوم کے عبادت خانہ میں ایک بدروح کے گرفتار کو شفا بخشنا

posted on
کفر ناحوم کے عبادت خانہ  میں ایک بدروح کے گرفتار کو شفا بخشنا

THE MIRACLES OF CHRIST

معجزاتِ مسیح

12-Miracle   

Jesus Drives Out an Evil Spirit

  Mark 1:21-27 Luke 4:31-36       


   

کفر ناحوم کے عبادت خانہ

میں ایک بدروح کے گرفتار کو شفا بخشنا

۱۲ ۔معجزہ

انجیل شریف بہ مطابق حضرت مرقس ۱باب ۲۱تا۲۷

لوقا ۴باب۳۱تا۶۳

مرحوم علامہ طالب الدین صاحب بی ۔ اے

؁ ۱۹۰۵ء

آیت نمبر ۲۱۔پھر وہ کفرناحوم میں داخل ہوئے۔

حضرت لوقا مسیح کےکفرناحوم میں داخل ہونے کو اس کے ناصرت میں روکے جانے سے مربوط کرتا ہے۔ اور حضرت متی 4باب 13آیت جہاں لکھا ہے کہ وہ ناصرت چھوڑ کر کفرناحوم میں جا بسا حضرت لوقا کے بیان کی تائید کرتا ہے ۔ واضح ہو کہ حضرت مرقس 1باب21آیت حضرت لوق کے بیان کی تردید نہیں کرتا۔ یہاں کوئی پوچھ سکتا ہے کہ یوحنا مسیح کے کفرناحوم میں رہنے کا حال کس لئے بیان نہیں کرتا؟اس کا سبب یہ ہے کہ وہ مسیح کے گلیلی کام اور رہائش کا بہت تھوڑا بیان کرتا ہے تاہم وہ اس کے کفرناحوم میں رہنے سے بالکل ناواقف نہیں۔ بلکہ وہ بھی اس کی طرف اشارہ کرتا ہے (دیکھو حضرت یوحنا 2باب 12آیت ، 6باب 59آیت )کئی وجوہات سے جنابِ مسیح کا کفر ناحوم میں رہنا مفید تھا۔ یہ شہر اس سڑک پر واقعہ تھا جو بحیرہ اعظم کی جاتی تھی۔ اور وہ صور اور صیدا اور عرب اور دمشق کی باہمی تجارت کا مرکز تھا۔ بہت سے لوگ یہاں جمع رہتے تھے۔ اور اس جگہ سے وہ بآسانی یہودیہ اتوریہ اور گلیل فراز کی طرف انجیل کی منادی  کے لئے جاسکتا تھا۔ علاوہ بریں یہاں کاہنوں اور فریسیوں اور فقہیوں کا اتنا زور نہ تھا جتنا یروشلم میں تھا۔ اور پھر اس کے شاگرد پطرس کا گھر بھی غالباً اسی جگہ تھا۔ اور وہ اس کے گھر میں پناہ گزین ہوسکتا تھا۔ آرام کے لئے اس جھیل کے ساحل سے بڑھ کر اور کوئی جگہ عمدہ نہ تھی۔ اور خطرہ کے وقت وہ بآسانی یہاں سے تیتراک فلپ کے علاقہ میں جاسکتے تھے۔ ماسوائے ان تمام وجوہات  کے کفر ناحوم کی اخلاقی حالت بگڑی ہوئی تھی اس سبب سے بھی اخلاقی امراض کے حکیم نے اسی جگہ کو اپنا مسکن اختیار کیا ہوگا۔ یہ شہر پرانے عہدنامے میں مذکور نہیں ہوا۔ جھیل کے مغربی ساحل پر گنیسرت کی سرزمین واقع تھا۔(حضرت متی 14باب 34آیت ،حضرت یوحنا 6باب 17تا 24آیت )اور اتنا بڑا تھاکہ اسے شہر کہہ سکتے تھے(حضرت متی 9باب 1آیت)وہ محصول لینے کی جگہ تھی (حضر ت متی  9باب 9آیت ،حضرت لوقا 5باب 27آیت )اور رومی سپاہیوں کا ایک دستہ بھی اس میں رہا کرتا تھا۔ (حضرت متی 8باب 9آیت ،حضر ت لوقا 7باب 8آیت )۔

اور وہ فوراً سبت کے دن عبادت خانہ میں جاکر تعلیم دینے لگا۔ اور اس تعلیم میں (حضرت  مرقس 1باب 15آیت )وہ یوحنا بپتسمہ دینے والی  کی "توبہ کی منادی " کے علاوہ وقت کے پورا ہونے کی خبر بھی دیتا تھا۔اس کی منادی میں توبہ کرو کیونکہ "وقت نزدیک ہے"نہیں آتا بلکہ اس کےعوض"وقت پورا ہوگیا ہے " آتا ہے۔ ماسوائے اس کے وہ انجیل پر ایمان لانے اور اسے قبول کرنے کی تعلیم بھی دیا کرتا تھا۔

آیت نمبر ۲۲۔اور لوگ اس  کی تعلیم سے حیران ہوئے کیونکہ وہ ان کو فقہیوں کی طرح نہیں۔ بلکہ اختیار والے کی طرح تعلیم دیتا تھا۔

لوگ اس کی تعلیم سے حیران ہوئے ۔ناصرت کی نسبت ان لوگوں پر زیادہ اثر ہوا۔ فقہیوں کی طرح نہیں۔فقہیوں کا فرقہ پہلے پہل عزرا کے زمانہ میں سر بلند ہوا۔ فقہیہ شریعت کو نقل کیا اور پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ اور بزرگوں کی روائتوں کے وسیلہ اس کی محافظت کیا کرتے تھے (حضرت متی 15باب 20آیت )اصل فقہیہ "شمعون راستباز"کے زمانہ تک موجود رہے ۔ یعنی قبل از مسیح 300سال تک ۔انجیل شریف میں "ان کو عالم شرع " یا"شریعت کے سکھلانے والے "بھی کہا ہے (حضرت متی 22باب 35آیت اور حضر ت لوقا 5باب 17آیت )ان کی تعلیم خارجی وسائل پر مبنی تھی۔ وہ فقط ربیوں کے فیصلوں کو پیش کیا کرتے تھے۔ لیکن ہمارے آقا ومولا کی تعلیم آزادانہ اور بااختیار صورت میں پیش کی جاتی تھی۔وہ نئی اور تازی باتیں بتایا کرتے تھے۔ ان کا بیان ان الفاظ سے شروع ہوا کرتا تھا۔ "پچھلوں نے ایسا کہا ہے "مگر مسیح کے یہ الفاظ تھے۔ میں تم سے کہتا ہوں "۔

آیت نمبر ۲۳۔اور فی الفور عبادت خانہ میں ایک شخص ملا جس میں ایک ناپاک روح تھی۔ وہ یوں کہہ چلا یا۔

(حضرت مرقس آیت 23)اس معجزے کی شرع دیکھو جس میں ان دو شخصوں کا ذکر ہے جن پر دیو چڑھے ہوئے تھے۔

آیت نمبر ۲۴۔کہ اے مسیح ناصری ہمیں تجھ سے کیا کام ۔کیا تو ہمیں ہلاک کرنے آیا ہے ۔ میں تجھے جانتا ہوں کہ تو کون ہے ۔ خدا کا قدوس۔(حضرت مرقس 24باب)

کیا تو ہمیں ہلاک کرنے آیا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ وہ جو پہلے صیغہ واحد کی صورت میں متکلم ہوتا ہے یہاں وہی جمع کے صیغہ میں سوال کرتا ہے۔ کیا۔تو ہمیں ہلاک کرنے آیا ہے ۔ ممکن ہے کہ وہ یہاں بدروحوں کی جماعت کا قائم مقام ہوکر کلام کررہا ہے۔ گویا تمام بدروحیں اس کے وسیلے مسیح سے ڈر رہی ہیں ۔ یہ الفاظ پکی شہادت ہیں۔اس مخالفت کی جو بدروحوں کی بادشاہت اور مسیح کی بادشاہت میں پائی جاتی ہے یہ الفاظ مسیح کے کلی اختیارات اور فضیلت پر گواہی دیتے ہیں۔ شیطانی سلطنت  کے ضعف اور تنزل  پر دلالت  کرتے ہیں ۔

میں تجھے جانتا ہوں کہ تو کون ہے ۔خدا کا قدوس ۔جس طرح فرشتوں نے اپنے گیت میں اس اپنے بادشاہ کو پہچانا (حضرت لوقا 2باب 13تا 14آیت )اسی طرح یہ بدروحیں بھی اس کو فوراً پہچان لیتی ہیں مگر نا امیدی کے نعروں کے ساتھ ۔ ان کی پہچان سے کس طرح کی امید اور اطاعت مترشیح نہیں بلکہ سخاوت بغاوت عیاں ہیں۔ دیکھو بدروحیں بھی اس کو مانتی اور اس سے کانپتی ہیں۔ (انجیل شریف خطِ یعقوب 2باب 19آیت)فقط انسان سے اپنے "بادشاہ کو " اس کے جمال میں نہیں پہچانتا ہے ۔(یسعیاہ 33باب 17آیت) وہ دنیا میں تھا اور دنیا کو اس نے بنایا۔ تو بھی دنیا نے اسے نہ جانا۔(حضرت یوحنا 1باب 10آیت )۔زمین نے اپنے بادشاہ کو نہ پہچانا ۔ لیکن آسمان اور دوزخ اس پر گواہی دیتے ہیں۔

آیت نمبر ۲۵۔ جنابِ مسیح نے اسے جھڑ ک کر کہا چپ رہ اور اس میں سے نکل جا ۔

توجہ طلب بات یہ ہے کہ کیوں جناب ِ مسیح اس کی گواہی کو ردکرتے ہیں۔ اس قسم کی تردید کی اورمثالیں بھی ہیں۔ (حضرت مرقس 1باب 34آیت ،حضرت متی 8باب 29آیت)یہ بیان اس واقعہ سے مشابہت رکھتا ہے جوپولوس کے وقت میں سرزد ہوا ۔ اور جس کا ذکر (اعماالرسل 16باب 16تا 18آیت ) میں درج ہے۔ وہاں ہم ایک لڑکی کو دیکھتے ہیں جوایک بدروح کے بس میں تھی ۔وہ پولوس اور اسکے ساتھیوں کے کام پر گواہی دیتی ہے۔لیکن پولوس اس کی گواہی کو قبول نہیں کرتا ۔ اور مسیح کی طرح اس روح کو حکم کرتا ہے کہ اس لڑکی میں سے نکل جائے۔ اس گواہی کو پڑھ کر تعجب آتا ہے کہ ایسی صریح اور صاف گواہی مسیح کی ذات اور شخصیت کی نسبت ایسے مخالف کی جانب سے آتی ہے ۔ توقع تو یہ تھی کہ یہ بدروح اس کی ذات اور شخصیت کو تاریکی اورغلطی میں ڈالنے کی کوشش کرتی۔ مگر برعکس اس کے اس کی گواہی بالکل صاف ہے۔ اس کا کیا سبب ہے ؟ٹرنچ صاحب نے دو خیال اسکےجواب میں پیش کئے ہیں۔ اول ۔ کہ شائد غلاموں کی طرح اس نے ڈر کے مارے خوشامد اور تملق کی راہ سے ایسا کہا۔ تاکہ اس کاغضب اور غصہ ٹل جائے۔دوم۔ یااس لئے کہ وہ ایک اور طرح اس کے کام کو نقصان پہنچائے۔ یعنی جب لوگ اس کے منہ سے صداقت کی بات سنیں تو وہ مسیح کی سچائی پر شک اور شبہ لائیں۔ ہمارے آقا ومولا کو اس قسم کی گواہی کی ضرورت نہ تھی۔ وہ جانتے تھے کہ ان بدروحوں پر فتح پانا اور ان کو نکالنا بجائے خو دایک عمدہ اور پختہ  گواہی اس کے کام کی ہے ۔ وہ ناپاک لبوں سے اپنی تعریفیں نہیں کرواتا ۔(زبور 50آیت 16)۔

جھڑک کر کہا۔ میکل کی طرح نہیں (انجیل شریف خطِ حضرت یہوداہ 1باب9آیت) نکالتا ۔ بلکہ اسے اپنے نام سے نکالتا ہے۔

آیت نمبر ۲۶۔پس وہ ناپاک روح اسے مروڑ کر اور بڑی آواز سے چلا کر اس میں سے نکل گئی ۔

کیا اس بدروح نے مسیح کا کہا نہ مانا؟معلوم تو ایسا ہوتا ہے کہ گویا نہ مانا۔ کیونکہ لکھا ہے  کہ بڑی آواز سے چلا کر اس میں سے نکل گئی۔ حالانکہ اس کا حکم چپ رہنے کے لئے تھا۔ لیکن مسیح نے اسے چلانے سے نہیں روکا تھا بلکہ بولنے سے روکا تھا۔ پس اس نے اس کی عدول حکمی نہیں کی۔

ایک اور نکتہ بھی حل طلب ہے۔ او روہ یہ ہے کہ کیا حضرت مرقس اور حضرت لوقا میں اختلاف پایا جاتا ہے ؟کیونکہ حضرت مرقس توکہتے ہیں کہ یہ روح اسے مروڑ کر چلی گئی۔ مگر لوقا کہتا ہے کہ بے ضر ر پہنچائے اس میں سے نکل گئی۔ درحقیقت ان دونوں بیانوں میں کسی طرح کا اختلاف نہیں ہے ۔ حضرت مرقس کا "مروڑنا " "لوقا کے "پٹکنے " کے برابر اور بے ضرر سے مراد یہ ہے کہ اس نے اس کو کسی طرح کا دائمی نقصان نہ پہنچایا۔ (حضرت مرقس  9باب 26آیت ) پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اس سے بھی شدید آثار نمایاں ہوئے۔ جب شیطان دیکھتا ہے کہ اب فلاں شخص پر اپنا قبضہ نہیں رکھ سکتا اس وقت وہ اسے برباد کرنے کو شش کرتا ہے۔جس طرح فرعون نے بنی اسرائیل کو اس وقت بہت دکھ پہنچایا جب اسے یہ یقین ہوگیا کہ اب یہ میرے قبضہ میں نہیں رہیں گے ۔ (ٹرنچ )۔

دیکھو شیطان کسی کو اتنا دکھ نہیں دیتا جتنا ان کو جو اس کے قبضہ سے ہمیشہ کے لئے کل جاتے ہیں۔ حضرت متی کی انجیل میں پہلا معجزہ کوڑھی کو چھوکر شفا بخشنا ہے ۔(حضرت متی 8باب 4آیت )حضرت یوحنا میں پہلا معجزہ پانی کو مے بنانے کا ہے (حضرت یوحنا 2باب 1تا 11آیت )حضر ت مرقس اور حضرت لوقا کا پہلا معجزہ (حضرت لوقا 4باب 33تا 37آیت ،حضرت مرقس 1باب 23تا26آیت )کفرناحوم کے عبادت خانہ میں ایک بدروح کونکالنے کا ہے۔

نصیحتیں اور مفید اشارے

1۔دیکھو کس طرح آسمانی اور شیطانی طاقتیں گرجا میں دوچار ہوتی ہیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ عبادت خانہ میں مسیح کا اس بدروح کے گرفتار کو شفا بخشنا ناذیل کی باتوں پر دلالت کرتا ہے ۔ اس بات پر کہ مسیح شیطان کی بادشاہت پر غالب آئے گا۔ اور وہ مصیبت زدوں کو اپنی رحمت سے بچائے گا۔ اور وہ اس معجزہ کے وسیلہ اپنی انجیل کی کامیابی پرمہر کرتا ہے کہ وہ دنیا پر غالب آئے گا۔

2۔بدرحوں کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں علم ہوتا ہے مگر محبت نہیں ہوتی۔ سچائی سے نفرت کرتے مگر ساتھ ہی خوشامد کرنے کی علت میں بھی گرفتار ہوتے ہیں۔ مسیح سے شریر نفرت کرتا ہے ۔مگر جب اس کے زور آور بازو کو دیکھتا ہے تو خوشامد اور تملق اختیار کرتا ہے ۔وہ غرور سے پر ہوتے مگر اس کے ساتھ ہی بزدل بھی ہوتے ہیں۔ ایسے آدمی اول درجہ کے مغرور ہوتے ہیں۔ پر ذرا سی بات سے ڈر جاتے ہیں۔ گناہ انسان کو بزدل بناتا ہے حتیٰ کہ وہ ذرا سی بات سے ڈر کر بھاگ جاتا ہے۔

3۔مسیح اور بدروح کا مقابلہ ۔ مسیح خاموش اورمطمئن ہے۔ بدروح جذبہ میں آئی ہوتی ہے۔اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ان دونوں میں سے ایک کےخیالات ایک جامنجمد اور دوسرے کے منتشر ہیں۔ایک محبت کی روح سے بھر پور اور دوسرا دکھ دینے پر آمادہ ہے۔ایک سرفراز ہوتاہے اور دوسرا پست ۔ ایک فتح پاتا ہے اور دوسرا مغلوب ہوتا ہے۔

5۔مسیح شیطان کے کاموں کو نیست کرنے آیا ۔اسی بیخ کنی میں اس کا جلال ہے (حضرت یوحنا 3باب 8آیت )۔

4۔مسیح شریر لبو ں کی گواہی قبول نہیں کرتا(زبور شریف 50آیت 16)۔

5۔دیکھو شیطان مسیح کو قدوس جانتا ہے۔ مگر نجات دہندہ نہیں مانتا۔

6۔علم اور ایمان میں کیسا فرق ہے ۔ یہ بدروح مسیح کی ذات اور شخصیت کا خاصہ علم رکھتی ہے مگر ایمان سے بے بہرہ ہے۔ کیا یہ کہنا بیجا ہے کہ اس طرح کاعلم نجات بخش نہیں ہوتا۔ نجات ایمان سے ہے۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا, معجزات المسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (17648)
Comment function is not open