en-USur-PK
  |  
Category
04

ایک جلندر کے مریض کو شفا بخشنا

posted on
ایک جلندر کے مریض کو شفا بخشنا

THE MIRACLES OF CHRIST

معجزاتِ مسیح

21-Miracle   

Jesus Heals a Man With Dropsy 

Luke 14:1-6

 

 

ایک جلندر کے مریض کو شفا بخشنا

۲۱ ۔معجزہ

انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا ۱۴باب ۱تا۶

مرحوم علامہ طالب الدین صاحب بی ۔ اے

؁ ۱۹۰۵ء

یہ معجزہ بھی حضرت لوقا کے ساتھ خاص ہے اور غالباً مسیح کے اس سفر میں واقع ہوا جس کا اشارہ (حضرت لوقا 13باب 22آیت )میں پایا جاتاہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مالک پھر ایک فریسی کی دعوت قبول کرتے ہیں اور اس کے گھر کھانا کھانے جاتے ہیں ۔اگرچہ آپ کے کام کا خاتمہ نزدیک آتا جاتا ہے اور آپ کے مخالفوں کی عدوات بڑھتی جاتی ہے تاہم وہ چاہتا ہے کہ ان فریسیوں میں سے کم ازکم بعض اس کی بادشاہت میں داخل ہونے کی ترغیب پائیں۔

یہ ضیافت سبت کے روز وقوع میں آئی ۔یہودی سبت کے روز ملاقات کرنے اور ضیافت دینے کو برا نہیں سمجھتے تھے (نحمیاہ 8باب 10آیت )اور ان کے نزدیک ایسا کرنے سے سبت نہیں ٹوٹتا تھا کیونکہ ان کو آگ سلگانا اور کھانا پکانا وغیرہ نہیں پڑتا تھا کیونکہ ان کا کھانا سبت سے ایک دن پہلے تیار کرلیا جاتا تھا۔ ٹرنچ صاحب کہتے ہیں کہ سبت کی عملی خرابیاں یہ تھیں کہ لوگ اسے شراب خوری اور عیاشی کا دن بناتے جاتے تھے۔ پر اس جگہ یہ خیال کرنا ضروری نہیں کہ ضیافت کوئی پبلک جشن تھا۔ کیونکہ اس سے پہلے کئی بار ہمارا مالک لوگوں کے گھر میں صرف ان کے خاندان کے ساتھ کھانا کھانے کے لئے  مدعو ہو چکا تھے ۔ مسیح کا دسترخوان پر بیٹھنا اس کی پاک اور خالص انسانیت کو ظاہر کرتا ہے ۔

ہمارے آقا ومولا سیدنا مسیح نے اس فریسی کی دعوت سے قبول کی لیکن الفاظ وہ اس کی تاک میں تھے "ظاہر کرتے ہیں کہ دعوت دینے والوں نے نیک نیتی سے دعوت نہیں کی تھی۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ اس کی گفتگو یا حرکات میں کوئی ایسی بات پائیں جس سے وہ اس پر تازہ الزام لگائیں۔ افسوس کیسے برے طور پر وہ لوگ مہمان نوازی کے اصول کو پامال کرتے ہیں۔

آیت نمبر ۲۔اور کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص مسیح کے سامنے ہے جسے جلندر ہے ۔

اس آیت کے پہلے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص گویا یک بیک یہاں مسیح کی نظر سے گذارا اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا فریسی کے گھر میں خود بخود اور بے بلائے چلانا آنا ممکن نہ تھا اور کہ یہ واقعہ کچھ ایسا ہی تھا جیسا کہ حضرت لوقا 7باب 36تا 37آیت)میں درج ہے ۔ پر بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اس کو فریسیوں نے خود بلایا اور ایسی جگہ بٹھایا تھا جہاں وہ فوراً مسیح کی نظر سےگزر جائے ۔ اور ان کا خیال یہ تھا کہ وہ اس بیماری کو شفا نہیں دے سکے گا۔ لہذا اس کو بہت شرمندہ ہوناپڑے گا ۔ اس سازش اور کینہ وری کے ثبوت میں وہ لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ پہلی آئت  میں صاف بتایا گیا ہے کہ وہ "اس کی تاک میں تھے "پس جب یہ لوگ اس شخص کو لائے تب اس کو کچھ معلوم نہ تھا کہ مجھے کس غرض کے لئے لے چلے ہیں۔ مگر بعد میں انہوں نے اس کے ساتھ مسیح کی نسبت  گفتگو کی ہوگی اور فریب سے اس کو امید دلائی ہوگی کہ آوہ تم کو شفا بخشے گا حالانکہ درپردہ ان کے دل میں یہ خیال تھا کہ مسیح یہ بیماری دور نہیں کرسکے گا اب گو انہوں نے فریب کے ساتھ اس سے گفتگو کی پر اس کے دل میں ایک قسم کی امید اور ایمان پیدا ہوگیا۔ اور چونکہ وہ خود اس سازش میں شامل نہ تھا لہذا جناب ِ مسیح نے اسے ہاتھ  لگا کر شفا دی اور چھوڑدیا۔"

مگر پیشتر شفا دینے کے اس نے سبت کے روزشفا بخشنا کا الزام جو اس پر لگ سکتا تھا دور کیا جیسا کہ وہ ہمیشہ کیا کرتا تھا۔ اس نے گویا اپنے مخالفوں پر ظاہر کیاکہ میں تمہارے خیالات سے واقف ہوں اور میں تمہارے منصوبوں اور سازشوں کو جانتا ہوں۔ تم کہتے ہو کہ اگر میں نے یہ معجزہ کامیابی سے کردیا تو مجھ پر سبت شکنی کا الزام لگاؤگے اور اگر میں معجزہ دکھانے میں ناکام نکلا تو میری تضحیک کرو گے ۔ پر میں ان میں سے کسی بات میں بھی تمہارے پنجہ میں نہیں پھنسونگا اب سے شرع کے عالمواور فریسیوں تم مجھے یہ بتاؤکہ "سبت کے دن شفا بخشنی روا ہے کہ نہیں۔

شر ع کے عالموں اور فریسیوں کی ہم آگے شرح کرچکے ہیں۔ جنابِ مسیح ان سے یہ سوال کرتے ہیں اور بیمار آپ کے سامنے خاموش کھڑا ہے ۔ شائد اس لئے کہ ایسے ایسے بڑے لوگوں کے سامنے بولنے کی جرات نہیں رکھتا یا اس لئے کہ اس بات کا امیدوار ہے کہ مسیح سے کوئی ہمت بخش کلمہ سنے ۔

انہوں نے دل کی خرابی سے یہ انتظام کیا تھا۔ اب جنابِ مسیح اپنی فضیلت اور ان کی شرارت اس سوال سے ظاہر کرتا ہے اور ان کو انہیں کے جال میں گرفتار کردیتا ہے۔ اور وہ اس طرح کہ اگر وہ اس کے سوال کے جواب میں ہاں کہتے تو اپنے منہ سے سبت کے روز معجزے کرنے کی اجازت دیتے اور اگر نہ کرتے تو ہمدردی اور محبت کی کمی ان کے انکار سے ظاہر ہوتی۔ پس اس سوال سے ان کا ایسا منہ بند ہوگیا کہ " وہ چپ رہے " آيت 4اور پھر اس کے بعد "اس نے اسے ہاتھ لگا کر شفا بخشی اور چھوڑ دیا ۔آیت 4۔

اور جس طرح کئی موقعوں پر (مثلاً حضرت متی 12باب 11آیت ،حضرت لوقا 13باب 15آیت )اس نے ان کو دکھایا کہ جس بات کا الزام تم مجھ پر لگاتے ہو وہ ایسی ہے کہ تم خود اس میں اپنے دینوی فوائد کے لئے گرفتار ہو جاتے ہو۔ اسی طرح اس موقع پر بھی وہ ان کو یا دلاتا ہے ۔

آیت نمبر ۵۔تم میں سےکون ایسا ہے جس کا گدھا یا بیل کو ئیں میں گر پڑے اور وہ سبت کے دن اس کو فوراً نہ نکالے۔

جناب مسیح ِپھر روزمرہ زندگی کے دستور وں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مگر ایسی صورت میں جو اس معجزہ کے ساتھ خاص طور علاقہ رکھتی ہے ۔ یعنی (حضرت لوقا 13باب 16آیت ) میں جہاں ایک عورت کے شیطان کے بند میں گرفتار ہونے کا ذکر آتا ہے وہاں گدھے اور بیل کے کھولنے کی تشبیہ سے اپنا مطلب اداکرتا ہے ۔ او ریہاں چونکہ ایک جلندر کی بیماری کا شکار ہے جس کے پیٹ میں پانی بھرا ہوا ہے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ اس لئے کہ وہ کوئیں کا ذکر کرتا ہے ۔ اس سے ایک تو عام طور پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انجیل نویس بڑی خبرداری سے وہ خاص خاص باتیں جو مسیح کی زبان سے نکلیں تحریر کرتے ہیں اور دوسری بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص سبت کے معجزوں کو دیکھ کر سٹراس کی طرح یہ الزام لگاتے ہیں کہ جو مختلف معجزے سبت کے روز واقع ہوئے وہ ایک ہی قصے کےمختلف بیان ہیں برسر راستی نہیں۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس قسم کے معجزات میں سے ہر معجزہ اپنی اپنی خصوصیتیں رکھتا ہے جن کے سبب سے وہ دو سرے معجزات  سے جو سبت کے روز واقع ہوئے امتیاز کیا جاسکتا ہے ۔

مطلب ا س سوال کا اس طرح ادا کیا جاسکتا ہے کہ "تم نہیں چاہتے کہ میں سبت کے دن اس شخص کو اس پانی سے جو اس کا دم بند کررہا ہے رہائی دوں۔لیکن یہی پانی جو اسے تکلیف دے رہا ہے جب تمہارے جانوروں میں سے کسی جانور کی تکلیف کا موجب ہوتا ہے اور تمہارے گدھے یا بیل کو خطرے میں ڈالتا ہے تو تم سبت کی ذرا پروا نہیں کرتے بلکہ اسے اس خطرے سے نکال لاتے ہو۔ پر یاد رکھو کہ انسان حیوان سے  بڑھ کر ہے " یہ بات سن کر وہ چپ ہوگئے اور "ان باتوں کا جواب نہ دے سکے ۔"آیت 6دیکھو وہ چپ تو ہوگئے مگر صداقت کووہ قبول کرنےو الے نہ بنے ۔ اوراغلب ہے کہ دہی دل میں چیں بجبیں بھی ہوئے ہونگے۔ (حضرت متی 12باب 14آیت )۔

نصیتحیں اور مفید اشارے

1۔دشمنوں کی سازشیں مسیح کو اس کے نیک کاموں سے نہیں روکتی ہیں۔

2۔مسیح ان آہوں کو جو دل ہی دل میں رہتی ہیں اور باہر نہیں نکلتی ہیں جانتے ہیں اس جلندر کے بیمار نے اپنی درد انگیز آواز سے ابھی اس کو اپنی سخت مصیبت سے آگاہ نہیں کیا کہ وہ خود بخود اس کے دل کی آرزو سے واقف ہوجاتا ہے ۔

3۔ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے جانوروں کی خبرداری کریں تاہم ایسا کبھی نہ ہونے پائے کہ ہم اپنی خود غرضی سے اپنے جانوروں کو اپنے ابنائے جنس پر ترجیح دیں۔

4۔شقی الطبع اور کینہ ور لوگوں کے درمیان بھی بھلائی کرنے اور مسیحی خدمت بجالانے کا بہترا موقع ملتا ہے ۔

5۔اپنے بھائیوں کی جسمانی مصیبتوں کےہلکا کرنے کو سب کوئی اچھا جانتے ہیں۔ اگر ان کے جسموں کو بچانا اچھا کام ہے تو کس قدر ان کی روحوں کو بچانا زیادہ اچھا کام ہے ۔

6۔اس کل معجزے سے (1)جنابِ مسیح کی بے قیاس محبت ٹپکتی ہے ۔ (2)اس کی بے نظیر حکمت درخشا ں ہے (3)اس کی خاکسار طبعیت اور سنجیدگی ہویدار ہے ۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا, معجزات المسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (16784)
Comment function is not open