QUEEN & HER MIRROR
ملکہ اور اس کاآئینہ
ایک کہانی ہے کہ بہت زمانہ پہلے ایک بہت خوبصورت ملکہ تھی۔ اس کا چہرہ خوبصورتی میں کنول کے پھول کی مانند تھا اور اس کی آنکھیں سیاہ اور چمکدرا تھیں۔اس کی ہر ایک حرکت میں حسن تھا۔ اور اسے دیکھنے سے مسرت ملتی تھی۔ ساتھ ہی ایک بڑی مشکل یہ تھی کہ وہ کسی لمحہ بھی اپنے نہایت حسین ہونے کو نہ بھول سکتی تھی اور اس کی زندگی کا مقصد ہی یہ ہوگیا تھا کہ لوگ اسے پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا کریں۔
وہ ہر روز صاف اور قیمتی لباس پہنتی او راپنی خدمت کے لئے ہمیشہ سیاہ فام خادماؤں کو پسند کرتی تاکہ اس کا گورا رنگ زيادہ ظاہر ہو۔اس کے محل کے ہر سمت آیئنے لگے ہوئے تھے۔ تاکہ وہ چلتے پھرتے اپنی صورت کو دیکھ سکے ۔
لیکن ایک موقعہ ایسا آیا کہ اس ملکہ پربڑا خوف چھاگیا۔ کیونکہ اس کے ملک میں چیچک کی وباپھیل گئی تھی اور ہر بڑا چھوٹا اس کا شکار ہورہا تھا۔ پس بجائے اس کے کہ وہ ان ماؤں کے لئے رنجیدہ ہو جن کے بچے مررہے تھے یا ان بڑوں کے لئے جن کی آنکھوں کی بینائی جارتی رہی تھی۔ وہ خود بہت خوف زدہ ہوگئی کہ شاید یہ بیماری اسے بھی لگ جائے ۔اس نے اسی ڈر سے اپنے محل کے گلاب اور دوسرے خوبصورت پھولوں کے باغ میں تفریح کے لئے جانا بھی بند کردیا۔
ایک روز اس نے اپنی پیٹھ اور سر میں شدید درد محسوس کیا۔ رات تک اسے بخار آچکا تھا اور تیسرے روز اسے معلوم ہوگیاکہ جس بات سے دو ڈر رہی تھی آخر کار اسی میں مبتلا ہوگئی ۔
اس روز وہ بخار کی شدت سے آہستہ آہستہ بے ہوش ہونے لگی یہاں تک کہ اسے کچھ ہوش نہ رہا۔اس حالت میں اس کی وفادار خادمائیں اس کی بے حد خدمت کرتی رہی اور انہوں نے دیکھ لیا کہ وہ حسن جس پر اسے اس قدر ناز تھا ہمیشہ کے لئے جاتا رہا۔
کچھ دنوں کے بعد وہ گویا قبر کے دروازہ تک پہنچ کر واپس ہونے لگی اور ایک عرصہ تک نیم خوابی کی حالت میں آنکھیں بند کئے ہوئے پڑی رہی اس کے منہ سے کوئی بات نہیں نکل سکی۔اس کی خادماؤں نے دیکھاکہ آہستہ آہستہ اس کی قوت واپس ہورہی ہے ۔ وہ اسکے منہ میں ہلکی غذا ڈال دیا کرتی تھیں اور انہیں اس کو ہوشیار کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی کیونکہ انہیں بہت ڈر تھا کہ ہوش آنے کے بعد وہ اپنے حسن کے بارے میں پوچھیگی ۔
ایک روز صبح کے وقت اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور اس نے اپنی ایک خادمہ سے آئینہ لانے کے لئے کہا ۔ وہ خادمہ جو اس وقت حاضر تھی اس نے کہا ۔ ملکہ آپ آئینہ کیوں منگوارہی ہیں۔ اگر آپ قوت محسوس کرتی ہیں تو ہم آپ کے بالوں میں کنگھی کریں گے ۔ ابھی آئينہ کی تو ضرورت نہیں ہے۔
دوسری صبح وہ بے صبر ہوکر اپنی خادماؤں پر غصہ ہونے لگی کہ آئینہ پیش کیاجائے۔ خادماؤں نے اس ڈر سے کہ شائد بخار پھر تیز ہوجائے اسے چاندی کا آئینہ جس کے چاروں طرف قیمتی پتھر جڑے ہوئے تھے بڑے خوف کے ساتھ دیا۔ اس آئینہ میں وہ اپنی صورت دیکھ کر بہت خوش ہوا کرتی تھی۔
جیسے ہی ملکہ نے آئینہ میں اپنی ایسی بگڑی ہوئی شکل دیکھی جسے نہ تو وقت اور نہ دنیا کی کوئی دوا ٹھیک کرسکتی تھی۔ اسے غصہ سے آئینہ کوپٹک دیا ۔ آئینہ سنگ مر مر کے فرش پر گرکر ہزاروں ٹکڑوں میں ٹو ٹ گیا۔ ملکہ نے اپنا چہرہ تکیہ میں چھپالیا اور اپنی خادماؤں سے کہا فوراً جاکر محل کے ہر آئینہ کو چور چور کردو تاکہ میں اپنی صورت پر کبھی نہ دیکھ سکو ں اور بھول جاؤں کہ میرا حسن جاتا رہا ۔
تعبیر
بیچاری ملکہ ۔ بھو ل جانے کی کوشش سے اس کے بگڑے ہوئے حسن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی تھی اور نہ اس بگاڑ کو دوسروں کی نظروں سے چھپایا جاسکتا تھا۔ سوا اس کے کہ وہ اپنی نظروں سے اپنی بگڑی ہوئی شکل خود نہ دیکھے۔ اس کہانی کوپڑھنے والے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔
کیا آپ کلامِ الہیٰ کی اس آیت سے واقف ہیں جس کی عبارت یہ ہے " گناہ لوہے کے قلم اور ہیرے کی نوک سے لکھا گیا ہے ۔ ان کے دل کی تختی پر۔۔۔۔کندہ کیا گیا ہے۔
"(بائبل شریف صحیفہ حضرت یرمیاہ رکوع 17 آیت 1)۔
آپ اس جھوٹ کو بھو ل جانے کی کوشش کرسکتے ہیں جو پچھلے ہفتہ آپ نے کہا ۔ آپ اس نا فرمانی کو بھی جس کا کسی کو علم نہیں اور اس حسد ونفرت کو جو آپ کے دل میں چھپی ہوئی ہے بھلا نے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ لیکن ان اعمال نے آپ کے دل پرایسا گہرا داغ چھوڑا ہے جسے آپ کسی طرح مٹانہیں سکتے ۔کچھ عرصہ بعد گناہ اپنے آپ کو چہرہ سے بھی ظاہر کروانے لگتا ہے ۔ وہ لڑکی جو فریب دیتی ہے اس کی آنکھیں اس کی دھوکہ دہی کو بتانے لگتی ہے۔ وہ لڑکی جو ہر بات میں منہ پھلاتی رہتی ہے۔ اس کے ہونٹ اپنی حالت بدل کر اس کے روٹھے پن کو ظاہر کرنے لگتے ہیں۔ وہ لڑکی جو غصہ کی غلام ہوجاتی ہے ۔ اس کی پیشانی پر شکنیں پڑجاتی ہیں۔ یہ تمام گناہ کی وہ ظاہری علامتیں ہیں جنہیں باری تعالیٰ ہمادے دلوں پر کندہ شدہ دیکھتا ہے ۔
بعض ایسے آئينے ہیں جو گناہ کے ان نشانوں کو ہم پر ظاہر کرتے ہیں۔ مثلاً جب آپ کی کوئی غلطی پکڑی جاتی ہے تو وہ ایک طرح کاآئینہ ہے ۔ جس میں آپ اپنے کو ویسا ہی دیکھ پاتے ہیں جیسا کہ دوسرے آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ بعض دفعہ آپ اس آئینہ پر غصہ ہوتے اور نفرت سے اسے زمین پر پٹک دینا چاہتے ہیں ۔ یا جب آپ کاضمیر آپ کو کسی فعل پر ملامت کررہا ہو تو اس وقت بھی آپ اس آئینہ کو اپنے سے دور کردینا چاہیں گے اور دوسری بات پر سوچنے لگیں گے تاکہ آپ اس برائی کے برُے خیال ہونے کو نہ مانیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کسی ایسی جگہ میں جہاں بائبل شریف کی تعلیم دی جارہی ہے اور جب ا ن تعلیمات کا زندگیوں سے تعلق سنایا جارہاہے تو آپ سننا پسند نہیں کریں گے کیونکہ سننے سے آپ میں بیقراری کا پیدا ہونا ضروری ہے ۔ اور جیسے ہی تعلیم ختم ہوتی ہے آپ سب کچھ بھول جانا چاہتے ہیں۔ خدا کا کلام کہتا ہے کہ اس طرح سن کر بھول جانے والا شخص اس آدمی کی طرح ہے جو اپنی قدرتی صورت آئینہ میں دیکھتا ہے اور چلے جانے کے بعد فوراً بھول جاتاہے کہ وہ کیسا تھا۔اگر آپ جان بوجھ کر اس طرح بھو ل جانے کے عادی ہوگئے ہیں تو " باری تعالی ٰ کی سچائی " کے آئینہ کو آپ اپنے سے دورکرچکے ہیں ۔ جسے اس نے اس دنیا میں اس لئے بھیج دیا ہے کہ ہم اس میں اپنی صورت دیکھ کر اصلاح کیا کریں۔
آپ اس آئینہ میں خود دیکھئے اور پہچانیے کہ یہ آپ پر کیا ظاہر کرتا ہے۔ کیونکہ ان کے لئے جو اس آئینہ میں اپنے اوپر گناہ کے نشانات کو دیکھ کر شرم اور افسوس محسوس کرتے ہیں بڑی امید ہے۔ وہ امید یہ ہے کہ آپ کے پاس ہی ایک ایسی ہستی کھڑی ہے جسے آپ اس آئینہ میں دیکھ سکتے ہیں اور جس کے صرف چھونے سے ایک نئی زندگی پیداہوجاتی ہے اور گناہ سے بدشکل کی ہوئی آپ کی روح اس طرح بدل جاتی ہے ۔جس طرح کہ خزاں کے پت جھڑکے بعد درخت نئی صورت پاجاتا ہے وہ ہستی سیدنا عیسیٰ مسیح ہیں۔ اور جب ہم آپ کے محبت سے بھرے ہوئے چہرہ پر اپنی نظریں جمائے ہوئے ہوتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ باری تعالیٰ اپنے وعدوں میں سچا ہے۔ يعنی " پروردگار اپنے لوگوں سے خوشنود رہتا ہے وہ حلیموں کو نجات سے زینت بخشے گا۔" (زبور شریف رکوع 149آیت 4)۔
پروردگار کی محبت نے آپ کو اس دنیا میں اس لئے بھیجا کہ آپ ہماری بگڑی ہوئی زندگیوں کو پروردگار کی بزرگی کی صورت میں بدل دیں۔ آپ کے وسیلے سے سب پرانی چیزيں جاتی رہتی اور نئی بن جایا کرتی ہیں۔
اے مری بچی تم اس فانی دنیا کی خوبصورت چیزوں سے محبت کرتی ہو اور پروردگار جس نے ان کو پیداکیا وہ بھی ان سے محبت کرتا ہے ۔ لیکن بار ی تعالیٰ کی ابدی بادشاہی میں داخل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ باطنی خوبصورتی پائی جائے ۔ کیا تم یہ باطنی خوبصورتی چاہتی ہو؟ تم ان کی طرف متوجہ ہو جو تمہارے قریب ہی ہیں۔ یعنی سیدنا عیسیٰ مسیح وہ تم میں پاکیزگی کا ایسا باطنی حسن پیدا کرسکتے ہیں جسے وہ بہت پسند کرتے ہیں ۔ وہ تم کو اسی باطنی خوبصورتی بخشنے پر قادر ہیں۔