انتباہ
اسلامی کتب میں قرآن اور احادیث ہی حرف ِ آخر ہیں ۔ مسلمان یہ ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن اللہ کا الہی مکاشفہ ہے، (مختلف ترجموں میں آئیتوں میں خفیف سا اختلاف پایا جاتاہے)۔ ہر سورۃ پورے باب کا پیشہ خیمہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق محمد مرد کامل کے طور پر ایک نمونہ ہیں جس کی تقلید ہر مسلمان پر فرض ہے۔ جو کچھ انہوں نے کہا اور عمل میں لائے وہ حدیث کہلاتی ہے۔ احادیث چھ طرح کی ہیں۔ احادیث : بخاری ، مسلم، ابو داؤد ، ترمزی، سنن ابنِ ماجہ، اور سنن نسائی۔ اس کتابچہ کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو محمد کی تعلیمات اور انکے کاموں سے روشناس کروایا جائے، نہ کہ ان کے جذبات کو برانگیختہ کیا جائے؛ مسلمانوں کو کسی حد اپنے خدا کے بارے میں آگاہی ہو کہ اس موضوع کے حوالے سے اللہ اور محمد نے کیا کہا ہے۔
روز و شب کی بھاگ دوڑ میں بعض اوقات ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی کے اس سفر میں ہماری زندگیاں ہوا کہ ایک جھونکے سے زیادہ کچھ نہیں۔ زندگی نہائیت غیر یقننی ہے، یہ کسی وقت بھی اپنے اختتام کو پہنچ سکتی ہے ، خاصکر اس دور میں جہاں جنگوں اور دہشت گردانہ کاروائیوں کی بھرمار ہے۔
مسلمان دہشت گرد اپنی کاروائیوں کے لئے قرآن اور محمد کی زندگی کو بطور ہدائیت استعمال کرتے ہیں، جبکہ اہل فکر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قرآن میں اس طرح کی کوئی تعلیمات موجود نہیں، یا قرآن کی غلط تفسیر کا نتیجہ ہیں۔
اس لئے یہ امر اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ان دونوں مکتبہ فکر کی تعلیمات اور دعوؤں کی جانچ پڑتال کی جائے۔ جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اس دین کے بانی کے زندگی اور تعلیمات اور طرز زندگی کا بغور مطالعہ کریں۔
سنت محمدی:
ابن اسحاق 326 کیمطابق اللہ نے فرمایا، " محمد سے پہلے کسی نبی نے اپنے دشمنوں سے لوٹ کے مال کا مطالبہ نہ کیا اور نہ ہی فدیہ کیطور پر قیدیوں کا مطالبہ کیا " ، محمد نے کہا، میں ڈر و خوف کی وجہ سے غالب آیا ہوں ، مجھے دنیا کو غلاظت سے پاک کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ طاقتور الفاظ سے نوازا گیا ہے۔ لوٹ کا مال میرے لئے حلال قرار دیا گیا ہے ، مجھے درمیانی کے اختیارات حاصل ہیں۔ یہ پانچ بنیادی رکن مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دئیے گئے۔
جب محمد کمزور اور ضرورتمند تھا، اس نے امن کی بات کی، جب اس کے ہاتھ دولت لگی، اور فوج جمع ہوچکی تو اس نے منصوبہ بندی کے تحت مسیحیوں، یہودیوں اور دیگر لوگوں کے خلاف تقریباً 67 جنگیں لڑیں۔ مسلمان دہشت گردوں کی وجہ تسمیہ کا ایک طائرانہ جائزہ ، مکمل طور پر یہ واضع کردیتا ہے کہ غیر مسلمین یا کفار کے خلاف جہاد کیوں برسرپیکار ہیں۔
بہت سے اس بات کی مخالفت میں یہ کہینگے کہ جہاد کا اصل مطلب ، "نفس پر قابو کی جنگ ہے" لیکن ولید شوبات جو کہ ایک مسلمان دہشت تھے اور اب مسیحی ہو چکے ہیں، فرماتے ہیں، " بالکل ایسے ہی جیسے ہٹلر کی لکھی ہوئی کتاب بنام " مین کماف"۔ بہت سی اقسام کے جہاد موجود ہیں، لیکن زیادہ تر کی تلاش یہی ہے کہ دنیا پر اللہ کا غلبہ مکمل کیا جائے، جس کے لئے اللہ کی مرضی پر انحصار بھی ضروری ہے لیکن زیادہ تر، طاقت کے استعمال پر ہی زور دیا جاتا ہے۔
قرآن میں بیشمار مقامات پر آیا ہے کہ اللہ اور محمد امن و صلح پسند ہیں، لیکن زیادہ ترآیات دوران قیام مکہ سے تعلق رکھتی ہیں، جب اسلام ابھی نوزائیدگی کے دور سے گزر رہا تھا اور کمزور تھا۔ بعد کی تعلیمات میں شدت کا عنصر نمایاں ہے۔ جن میں سب سے زیادہ سورۃ 9:5؛اور سورۃ 9:29 خاص طور پر قابل ذکر ہیں اور "تلوار والی آیات" کہلاتی ہیں۔
سورۃ 9:5، التوبہ " جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور پکڑلو اور گھیرلو اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھے رہو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔ "
سورۃ 9:29، " جو اہل کتاب میں سے خدا پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر (یقین رکھتے ہیں) اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو خدا اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔ "
معروف اسلامی اسکالر انوار الحق اپنی تصنیف ، " قرآن میں تنسیخ " کے اندر سے زائد 100 ایسی آیات کا ذکر کرتے ہیں جو ان دو آیات کی وجہ سے منسوخ ہوچکی ہیں، مثلاً ، سورۃ 2:256، " دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے " اور جن لوگوں کو یہ مشرک خدا کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بے سمجھے برا (نہ) کہہ بیٹھیں۔ اس طرح ہم نے ہر ایک فرقے کے اعمال (ان کی نظروں میں) اچھے کر دکھائے ہیں۔ پھر ان کو اپنے پروردگار ک طرف لوٹ کر جانا ہے تب وہ ان کو بتائے گا کہ وہ کیا کیا کرتے تھے ۔ "
سورۃ 7:199، "اے محمد عفو اختیار کرو اور نیک کام کرنے کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کرلو "
سورۃ 45:14، " مومنوں سے کہہ دو کہ جو لوگ خدا کے دنوں کی (جو اعمال کے بدلے کے لئے مقرر ہیں) توقع نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں۔ تاکہ وہ ان لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلے دے"
سورۃ 109:6، " تم اپنے دین پر میں اپنے دین پر"
وقت کیساتھ محمد کی تعلیمات میں تغیر؛ جہاد لازم :
جب محمد طاقتور ہوتا چلا گیا، تو اس نے یہ تلعیم دینی شروع کردی کہ اگر تم جہاد سےمنسلک نہ ہوئے تو تمہارا دائمی انجام دوزخ اور دردناک تکلیف تباہی ہوگا۔ (سورۃ 48: 16 تا 17 آیات، 9:81؛ 9:94؛ اور 95 آیات) جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے ہلاک ہو جاتے ہیں ان کیلئے جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ (سورہ 3 اس کی 157 تا 158)۔ جو مسلمان جہاد میں حصہ لیتا ہے وہی سچا مسلمان ہے ( سورۃ 49:15؛ 9:44)، ایک اندازہ کے مطابق قرآن میں جہاد سے متعلق 480 حوالہ جات موجود ہیں۔ یہاں چند ایک پیش کئے جا رہے ہیں:
سورۃ 2:216، " (مسلمانو) تم پر (خدا کے رستے میں) لڑنا فرض کردیا گیا ہے وہ تمہیں ناگوار تو ہوگا مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو۔ اور ان باتوں کو) خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ "
سورۃ 8:67، " پیغمبر کو شایاں نہیں کہ اس کے قبضہ میں قیدی رہیں جب تک (کافروں کو قتل کر کے ) زمیں میں کثرت سے خون نہ بہا دے! تم لوگ دنیا کے مال کے طالب ہو۔ اور خدا آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے۔ اور خدا غالب حکمت والا ہے۔
سورۃ 9:44، " جو لوگ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو تم سے اجازت نہیں مانگتے (کہ پیچھے رہ جائیں بلکہ چاہتے ہیں کہ) اپنے مال اور جان سے جہاد کریں۔ اور خدا ڈرنے والوں سے واقف ہے "
سورۃ 8:74، " اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور خدا کی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی۔ یہی لوگ سچے مسلمان ہیں۔ ان کے لیے (خدا کے ہاں) بخشش اور عزت کی روزی ہے "
سورۃ 49:15، " مومن تو وہ ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر شک میں نہ پڑے اور خدا کی راہ میں مال اور جان سے لڑے۔ یہی لوگ (ایمان کے) سچے ہیں۔ "
سورۃ 4:76، " جو مومن ہیں وہ تو خدا کے لئے لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ بتوں کے لئے لڑتے ہیں سو تم شیطان کے مددگاروں سے لڑو۔ (اور ڈرو مت) کیونکہ شیطان کا داؤ بودا ہوتا ہے۔ "
البخاری، حدیث نمبر 24، جلد نمبر 1 کیمطابق، " ابن عمر سے مروی ہے ، کہ اللہ کہ رسول نے فرمایا، " مجھے پر لڑنے کا حکم نازل ہوا ہے جب تک کہ میں اللہ کا حکم قائم نہ کردوں، کہ سب یہ اقرار کریں کہ اللہ ایک اور محمد اس کا رسول ہے۔
سورۃ 2:217 کے مطابق، لوگوں کا اللہ کا منکر بنانا کسی کو قتل کرنے سے زیادہ قبیح گناہ ہے۔ اس بنا پر کسی کافر کو جو لوگوں کو اللہ کا منکر بنائے، واجب القتل ہے۔ علاوہ ازیں ترمزی، حدیث نمبر 402 میں رسول اللہ (ﷺ) فرماتے ہیں، جو اللہ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں انہیں صرف اتنی ہی ضرر پہنچتی ہے جتنی چیونٹی کے کاٹنے سے۔ محمد خود بھی اللہ کی راہ میں بار بار شہید ہونے کی خواہش رکھتا تھا، ( البخاری، حدیث نمبر 35، جلد نمبر 1 اور اس کے علاوہ دیکھئے البخاری ، حدیث نمبر 220، جلد نمبر 4، جسمیں لکھا ہے کہ " رسول اللہ فرماتے ہیں، " کہ میں دہشت کے ذریعے سے غالب آیا ہوں "
الطبری 9، صحفہ نمبر 42 میں ایک کافر بنام عامر بن امیہ نے کہا، " ہم ایک ایسی مصیبت سے گزرے، جس سے بچنا ممکن نہیں تھا، تم نے دیکھا کہ محمد نے ہم سے کیا کیا۔ اہل عرب نے اس کی اطاعت قبول کرلی اور ہم اتنی سکت نہیں کہ ہم اس سے لڑ سکیں۔ تم یہ جانتے ہو کہ کوئی جماعت اس سے محفوظ نہیں، اور کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ باہر نکل کر اس دہشت کا سامنا کر پائے۔ یہ تو صرف چند ایک مختصر حوالہ جات ہیں جو قران سے لئے گئے ہیں ، 9 سالوں میں خود اس نے 27 جنگوں میں حصہ لیا (ابن کثیر ۔ عبدیاہ و-نحیاہ۔ جلد نمبر 4، صحفہ نمبر 179) ایسی بیشمار آیات موجود ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ محمد کی تعلیم ، اس کے اعمال پر مبنی تھی، یعنی اللہ کی راہ میں خون ریز جہاد!
یسوع کا جہاد فرق نوعیت کا تھا:
اس کے برعکس جب جنابِ مسیح کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو بہت جلد ہمیں یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ گنگاروں کا انبوہ غفیر ان کا دیوانہ تھا، اور لوگ ہر ممکن کوشش کرتے تھے کہ کسی طرح سے ان کی قربت انہیں میسر آ سکے۔ انہیں ان کی قربت سے موت کا خوف محسوس نہیں ہوتا تھا۔
کوئی شک نہیں کہ جناب مسیح نے ایک موقع پر فرمایا کہ " یہ نہ سمجھو کہ میں دنیا میں صلح کروانے آیا ہوں ، صلح کروانے نہیں بلکہ تلوار چلانے ( متی 10:34) ، لیکن وہ اس موقع پر مسیحیوں کی جانب اشارہ کررہے تھے کہ وہ بے دین لوگوں کی تلواروں کی نزر ہونے کو ہیں۔ اور جب ایک موقع پر ان کے ایک شاگرد نے یسوع کے مخالف پر حملہ کیا تو جناب مسیح نہ صرف اس آدمی کو چنگا گیا بلکہ اپنے شاگرد کو ڈانٹا ( لوقا 22 اس کی 49 تا 51 آیات) محمد لوگوں کو بزور طاقت اطاعت پر مجبور کرتا تھا، جبکہ جناب مسیح لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنے کی تلاش میں تھے۔ یسوع نے فرمایا ، " میری بادشاہی اس دنیا کی نہیں ۔ اگر میری بادشاہی دنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑتے تا کہ میں یہودیوں کے حوالہ نہ کیا جاتا۔ مگر اب میری بادشاہی یہاں کی نہیں۔ " (یوحنا 18:36) ، جناب مسیح نے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ " اپنے مخالفتین کا مقابلہ نہ کرو " ( متی 5:36) ، " جو تمہیں ستاتے ہیں ان کے لئے برکت چاہو، برکت چاہو۔ لعنت نہ کرو" (رومیوں 12:14) اور " اپنے دشمنوں سے محبت کرو اور جو تمہیں ستاتے ہیں ان کے لئے دعا کرو" (متی 5:44)
اللہ ، محمد اور جناب مسیح کی تعلیمات میں زمین آسمان کا فرق موجود ہے۔ محمد جنت کے لئے کسی کا بھی ضمانتی نہیں، صرف اللہ کی مرضی پر منحصر ہے ، جبکہ مسیح نے آپ کی مفت نجات کے لئے اپنی جان گزارنی ، جو آپ خود سے کبھی حاصل نہ کرسکتے تھے۔ افسیوں 2 باب اس کی 8 تا 9 آیات میں یوں درج ہے ، " کیونکہ تم کو ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں ۔ "
ہم نے یہ پیغام آپ تک اس لئے پہنچایا ہے کہ ہمیں آپ سے محبت ہے اور ہم آپ کو بہشت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب آپ خدا کی عدالت میں اس کے حضور پیش کئے جائینگے تو آپ اپنی لاعلمی کا عزر پیش نہیں کرسکیں گے۔ یہ فیصلہ آپ ہی کو کرنا ہے، اور آپ اپنے فیصلے کے جوابدہ ہونگے۔