en-USur-PK
  |  
Category
24

صوبہ دار کے خادم کو اچھا کرنا

posted on
صوبہ دار کے خادم کو اچھا کرنا

THE MIRACLES OF CHRIST

معجزاتِ مسیح

11-Miracle   

Jesus Heals a Centurion's Servant

 Matthew 8:1-4 Mark 1:40-45 Luke 5:12-14



صوبہ دار کے خادم کو اچھا کرنا

۱۱ ۔معجزہ

انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی ۸باب ۵تا۱۳

لوقا ۷باب ۱تا ۱۰

مرحوم علامہ طالب الدین صاحب بی ۔ اے

؁ ۱۹۰۵ء

ہم اوپر بتلا چکے ہیں کہ یہ معجزہ وہی معجزہ نہیں ہے جو حضرت یوحنا نے انجیل میں بیان کیا۔(انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا 4باب 43آیت)اور ہم نے وہ فرق بھی بتایا ہے جس کے سبب سے ان دونوں واقعات کو جدا جدا سمجھنا چاہئیے ۔ اس معجزہ کو حضرت متی اور حضرت لوقا دونوں نے رقم کیا ہے۔ مگر ان کے بیان میں تطبیق کی ضرورت معلوم ہوتی ہے ۔ حضرت متی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ خود آیا۔ مگر حضرت لوقا کے بیان سے برعکس اس کے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خود نہیں آیا بلکہ اس نے اور لوگوں کو مسیح کے پاس بھیجا ۔ واضح ہو کہ حضرت لوقا کا بیان زیادہ مفصل اور باترتیب ہے ۔مگر حضرت متی کا بیان بہت مختصر سا ہے ۔ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس اصول کو کام میں لاتے ہیں جس کی رو سے ہم اس کا م کو جو اوروں سے کرواتے ہیں اپنا کیا ہوا سمجھتے ہیں۔  اصول تاریخی بیانوں میں جائز مانا جاتا ہے مثلا ً جوکچھ سپاہ کرتی ہے وہ بادشاہ کا کیا ہوا سمجھا جاتا ہے ۔ او رہماری روز مرہ زندگی کے تعلقات میں بھی اس اصول کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے ۔ ایک مثال حضرت مرقس 10باب 35آیت ،بمقابلہ حضرت متی 2باب 20موجود ہے ۔ پھر حضرت یوحنا 3باب 22آیت میں ہے کہ جناب مسیح نے بپتسمہ دیا ۔مگر حضرت یوحنا 4باب 1آیت میں اس کی یہ شرح پائی جاتی ہے کہ مسیح کے شاگردوں نے بپتسمہ دیا ۔حضرت یوحنا 19باب1آیت ،میں ہے کہ پیلاطس  نے اس کے کوڑے لگائے حالانکہ اس نے اپنے ہاتھ سے یہ کام نہیں کیا۔ پھر بمقابلہ  کرو حضرت متی 14باب 10آیت ،حضرت مرقس 6باب 27آیت سے۔

آیت نمبر ۵۔اور جب وہ(سیدنا مسیح ) کفر ناحوم میں داخل ہوئے۔

یہ معجزہ پہاڑی وعظ کے بعد واقع ہوا۔ حضرت لوقا 7باب1آیت ۔جنابِ مسیح اس وقت کفرناحوم میں رہا کرتے تھے۔ اور یہ معجزہ اس وقت سرزد ہوا ۔ جبکہ وہ باہر سے کفر ناحوم میں داخل ہورہا تھا۔

ایک صوبہ دار آپ کے پاس آیا اور آپ کی منت کرکے کہا ۔

صوبہ دار ۔ یہ خطاب ان افسرو ں کا تھا جو رومی فوج کے سو سو سپاہیوں پر حکومت کیا کرتے تھے یہ عہدہ انگریزی کپتان کے عہدے کے نسبت زیادہ ذمہ داری اور فضیلت کا عہدہ تھا۔ معلوم نہیں یہ صوبہ دار ہیرودیس انتپاس کا جو گلیل کا تترارک (چوتھائی ملک کا حاکم )تھا ۔ یا اس کا تعلق اس رومی فوج کے ساتھ جو کفر ناحوم میں مقیم تھی۔ کیونکہ رومی اپنی فوج ایسے صوبجات میں بھی رکھا کرتے تھے جو برائے نام خود مختار ہوتے تھے۔ گو یہ صوبہ دار غیر قوم تھا۔ مگر کئی غیر قوم لوگوں کی طرح یہ بھی بت پرستی کی خرابی اور بدی کو محسوس کررہا تھا۔ اور اسرائیل کے خدا کی سچی عبادت سے بہرور تھا۔ یہودی مذہب نے ا س کی کئی روحانی حاجتوں کو رفع کیا۔ اور کئی ایک رفع کرنے کی امید اس کے سامنے رکھی جتنے صوبہ داروں کا ذکر انجیل شریف میں آیا ہے وہ سب اچھی طرح یا دکئے گئے ہیں۔ (حضرت متی 27باب 54آیت ،اعماالرسل 10باب 27تا 43آیت)اس صوبہ دا نے بھی قرینلئیس کی طرح یہودی مذہب کی فضیلت کو محسوس کیا۔ او راغلب  ہے کہ وہ سن چکا تھاکہ بادشاہ کے ملازم کا بیٹا کس طرح صحت یاب ہوا۔اس بات کے علم نے دیگر باتوں کے ساتھ مل کر جو اس نے مسیح کی نسبت سنی تھیں اس کو کامل یقین دلایا کہ مسیح  اس کے نوکر کو شفا بخش دیں گے ۔

ان کے پا س آیا اور ان کی منت کرکے کہا۔ جیسا ہم اوپر بیان کر آئے ہیں حضرت متی اس کام کو اس نے دوسروں کے وسیلے کروایا اسی سے منسوب کرتا ہے۔ لیکن حضرت لوقا اس واقعہ کو مفصل طور پر تحریر کرتا ہے چنانچہ اس کی انجیل میں ہم پڑھتے ہیں کہ اس نے یہودیوں کے کئی بزرگوں کو اس کے پاس بھیجا اور اس سے درخواست کی کہ آکر میرے نوکر کو اچھا کردیں۔ وہ خود مسیح کے پاس نہیں جاتا اور اس کے نہ جانے کا سبب حضرت لوقا 7باب 6تا 7آیت میں مذکور ہے ۔ اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس لئے نہیں  گیا کہ اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا کہ اس کے حضورمیں جائے۔ وہ مسیح کو ایک اعلیٰ اور اپنے آپ کو ایک ادنیٰ دنیا کا بادشاہ سمجھتا تھا ۔ لہذا وہ خود نہیں آتا بلکہ یہودیوں کے بزرگوں کے اس کے پا س بھیجتا ہے ۔ یہ بزرگ خوشی سے اس کے پاس آتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سفارش  کے کام کو بڑی سرگرمی سے انجام دیا۔ مثلاً انہوں نے  مسیح کی منت کی او رکہا کہ " وہ لائق ہے کہ آپ اس کی خاطر یہ کریں کیونکہ وہ ہماری قوم سے محبت رکھتا ہے۔او رہماری قوم کے عبادت خانہ کو بھی بنوایا ہے۔ اس بیان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ صوبہ دار غیر قوم میں سے تھا اور ان لوگوں کے زمرے میں داخل تھا جنہو ں نے یہودی مذہب کو عام طور پر  تو قبول کرلیا تھا مگر ختنہ نہیں کروایا تھا۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ رومی تھا پر اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ رومیوں  میں سے کبھی کسی نے انتپاس کے ماتحت  اس قسم کا عہدہ اختیار کیاہو۔ زیادہ غالب یہ ہے کہ وہ یا تو یونانی تھا یا آرامی ۔ (کیمبرج سیریز لوقا )یہودیوں  نے کہا اس نے ہمارے لئے عبادت خانہ بنوایا ہے۔ اس کا یہ مطلب یہ نہیں کہ کفر ناحوم میں اس کےسوا اور کوئی عبادت خانہ نہ تھا۔ پر یہ کہ جس عبادت خانہ سے یہ لوگ تعلق  رکھتے تھے۔ وہ اس نے بنوایا تھا۔ اور تعجب نہیں کہ وہ کفر ناحوم میں سب سے بڑا عبادت خانہ ہو۔اگر کفرناحوم وہی جگہ ہے جو زمانہ حال میں تلحم کے نام سے موسوم ہے ۔ تو اس کے کھنڈرات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں عبادت خانے ہیں جن میں سے ایک کی دیواریں جو سفید پتھر  کی بنی ہوئی ہیں ہیرودیس  کے زمانہ سے علاقہ رکھتی ہیں اورایک اونچائی  پر جھیل کے کنارے کھڑی ہیں۔ ممکن ہے کہ جس عبادت خانہ کا ذکر حضرت لوقا کرتے ہیں وہ یہی عمارت ہو جس کی دیواریں  اب تک اس زمانہ کی خبر دیتی ہیں۔جو پیغام اس صوبہ دار نے بزرگوں کے ہاتھ بھیجا یہ تھا کہ ۔

آیت نمبر ۶۔اے خداوند میر ا خادم گھر میں مفلوج پڑا ہے۔

جس لفظ کا ترجمہ حضرت متی میں خادم ہوا ہے وہ یونانی میں پائیس (Pais) ہے جس کے معنی بچے یالڑکے کےبھی ہیں۔رومیوں ،یونانیوں اور عبرانیوں میں نوکر کو لڑکا کہہ کر پکارنے کادستور جاری تھا۔ اسی طرح انگریزی میں بھی نوکر کو (Boy)کہہ دیا کرتے ہیں۔ مگر اس جگہ اس لفظ کا ترجمہ "بیٹا "کرنا مناسب نہیں۔ حضرت لوقا جو لفظ استعما ل کرتے ہیں وہ ڈولاس (Dovlos) ہے جس کے معنی غلام یا بردہ کے ہیں۔ حضرت پولس اکثر اس لفظ کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ اور اپنے تیئں مسیح کا غلام کہتے ہیں تاکہ اپنا اور مسیح کا رشتہ ظاہر کریں۔

مفلوج پڑا ہے۔ وہ خاص بیماری جس میں صوبہ دار کا نوکر مبتلا تھا۔ اس زمانہ میں فالج کی ایک قسم سمجھی جاتی تھی۔ چونکہ اس میں بہت تکلیف ہوا کرتی تھی ۔ لہذا عالموں کا خیال ہے کہ وہ بیماری (Tetames) ہوگی۔ حضرت لوقا بتاتے ہیں کہ وہ قریب المرگ تھا۔ یعنی بستر سے لگا ہوا تھا۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ خادم اس کو عزیز تھا گویا"یہ یہودیوں کے لئے ایک نمونہ تھا۔ جنہیں تالمود (یہودیوں کی روایت کی کتاب )نے غلاموں کے لئے ماتم کرنے سے منع کردیا تھا۔"

آیت نمبر ۷۔میں آکر اسے اچھا کرونگا۔

لفظ میں پر زور ہے۔ حضرت لوقا بتاتے ہیں کہ جب مسیح یہودی سرداروں کے ساتھ اس کے گھر کی طرف چل پڑے ۔ تو اس نے پھر اپنے دوستوں کو ان کے پاس بھیجا اور کہا کہ میں اس لائق نہیں کہ آپ میری چھت تلے آئیں ۔پہلے تو صرف یہی خیال اس کے دل میں پیدا ہوا کہ مسیح ایک نہائیت بزرگ اور پا ک شخص ہیں۔ اور میں ایک ناچیز اور حقیر بشر ہوں۔ اس لئے زیبا نہیں کہ میں خود ان کے پاس جاؤں ۔بہتر ہے کہ یہودیوں کے بزرگ جائیں اور ہوسکے تو انہیں اپنے ساتھ لے آئیں۔ مگر اب ایک نیا خیال اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ سوچنے لگتا ہے میں اس قابل ہی نہیں کہ مسیح میرے گھر میں آئے۔ اور نہ اس کے آنے کی ضرورت ہی ہے کیونکہ اس کا کلا کافی ہے۔اس شخص کی سیرت کا ایک ایک عنصر غور کے لائق ہے ۔ یعنی اس کا ایمان اور اس کی گہری فروتنی توجہ کے لائق ہے۔ اور اسی طرح اس کی وہ محبت جو وہ خدا کے لوگوں سے رکھتا تھا اور فیاضی اور وہ ہمدردی جس کے سبب وہ اپنے غلام کے لئے فکر مندتھا۔ (غلام اس زمانہ میں اپنے مالکوں کی ہمدردی سے بہت ہی کم بہرور تھے)غور کے لائق ہے یہ ساری باتیں ایسے اوصاف حمیدہ تھے کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص خدا کے ان فرزندوں میں سے تھا جو دنیا میں جا بجا پائے جاتے تھے۔ اور جن کو کلیسیا کی پاک رفاقت میں اکٹھا کرنے کے لئے مسیح آئے تھے۔(حضرت یوحنا 11باب 52آیت )۔

آیت نمبر ۸۔اس لائق نہیں کہ میری چھت تلے آئیں۔

گمان ہے کہ شائد وہ اسی لئے اپنے تیئں نالائق سمجھتا تھا کہ وہ غیر قوم تھا اور یہودیوں کا کسی غیر قوم کے گھر میں جانا رسمی شریعت کے مطابق ناپاک سمجھا جاتا تھا ۔ مگر سارے بیان کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تیئں اخلاقی طور پر نالائق سمجھتا تھا۔

بلکہ زبان سے کہہ دے ۔ فقط ایک لفظ اپنی زبان سے کہہ دے اور میرا خادم شفا پائے جائے گا ۔ شائد اس کو یا دہوگا کہ اسی جگہ بادشاہ کے ملازم کا لڑکا ایک ہی لفظ کے وسیلے شفا پاگیا تھا۔(حضرت یوحنا 4باب 50آیت)۔

آیت نمبر ۹۔کیونکہ میں بھی دوسرے کے اختیار میں ہوں اورسپاہی میرے ماتحت ہیں۔ جب ایک سے کہتا ہوں جا تووہ جاتا ہے ۔ اور دوسرے سے کہ آتو وہ آتا ہے ۔ اور جب اپنے نوکر سے کہتا ہوں کہ یہ کر تو وہ کرتا ہے۔

یہاں وہ اپنے تجربہ سے ایک مثال پیش کرکے اس صداقت کو واضح کرتا ہے کہ جنابِ مسیح اپنے ایک لفظ ہی سے بیماری کو دور کرسکتے ہیں۔

میں بھی دوسرے کے اختیار میں ہوں۔ صوبہ دار سو سپاہیوں پر حکم کیا کرتا تھا اور ہمارے زمانے کے کپتان کا سا عہد ہ رکھتا تھا۔ اس کے نیچے ایک سارجنٹ ہوا کرتا تھا۔ اور اسکے اوپر ایک کرنل اور ایک جنرل ہوتا تھا۔ پس صوبہ دار ایک ایسا شخص تھا جو حکم کرنا اور حکم بجالانا دونوں باتیں جانتا تھا۔ اور چونکہ وہ مسیح کو آسمانی فوجوں کا حکمران سمجھتا تھا لہذا وہ اس بات کا پکا یقین رکھتا تھا کہ اس کاایک لفظ ہی کافی ہے۔ یہاں بیماری ایک شخص تصور کی گئی ہے اسی طرح حضرت لوقا 4باب 39آیت ،میں آیا ہے "اس نے تپ کو جھڑکا "بعض کا خیال ہے کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح میں دوسروں کے اختیار میں ہوں اور سپاہی میرے اختیار میں ہیں اسی طرح مسیحی الہٰی حکم کے ماتحت ہیں۔ او ربیماریاں اس کے ماتحت  ہیں"کےساتھ ہے ۔ یعنی میں بھی اختیار رکھتا ہوں اور سپاہی میرے زیر  حکم ہیں۔ اسی طرح آپ بھی اختیار رکھتے ہیں اور تمام بیماریاں آپ کے حکم کے تابع ہیں۔

ایک سے کہتا ہوں جا تووہ جاتا ہے اور دوسرے کہتا ہوں کہ آتو وہ آتا ہے۔یہ الفاظ کامل تعمیل  پر دلالت کرتے ہیں ۔ یعنی وہ کہتا ہے کہ میرے حکم کی تعمیل میں کسی طرح کی چون وچرا نہیں کی جاتی۔

آیت نمبر ۱۰۔سیدنا مسیح نے یہ سن کر تعجب کیا اور پیچھے آنے والوں سے کہا ۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں نے ایسا ایمان اسرائیل میں بھی نہیں پایا۔

مسیح نے دو دفعہ تعجب کیا۔ ایک دفعہ یہاں ایمان کے سبب سے اور ایک دفعہ بے ایمانی کے سبب سے (حضرت مرقس 6باب 6آیت )لازم نہیں کہ ہم اس کے تعجب کرنے تعجب کریں اور اس کی تشریح کے لئے اپنی تاویلیں گھڑیں۔اتناکہنا کافی ہے کہ الوہیت کے اعتبار سے اس میں تعجب اور حیرت کو جگہ نہ تھی۔ اگر اسکی انسانیت میں تعجب کے لئے راہ تھی۔ اس سے زیادہ تشریح کا طالب ہونا اس کے بیان کے زور کو کھودینا ہے۔ اس کا تعجب اس جگہ بڑا لطف دے رہا ہے ۔

میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں نے ایسا ایمان اسرائیل میں بھی پایا۔ یہ الفاظ حضرت لوقا اور حضرت متی دونوں میں پائے جاتے ہیں ۔ سینٹ آگسٹین فرماتے ہیں کہ جو بات اس نے زیتوں میں نہ پائی سو جنگلی انجیر میں پائی۔ ایک اور غیر قوم کے مضبوط ایمان کا ذکر (حضرت متی 15باب 22آیت )میں پایا جاتا ہے ۔ہمیں یقین ہے کہ جو شخص ایسی خوبصورت خاکساری اور ایسا مضبوط ایمان مسیح کے معجزات قدرت کے بارے میں رکھتا تھا وہ اس کی معافی بخش قدرت کا بھی قائل ہوگا۔ یا تھوڑے عرصہ بعد قائل ہوگیا ہوگا۔ (بمقابلہ کرو حضرت متی 5باب 3آیت )کیونکہ جنابِ مسیح اس کی فروتنی  اور خاکساری کے سبب سے تعجب نہیں کرتے۔ بلکہ ایمان کے سبب سے جو تمام روحانی برکتوں کی جڑ ہے۔ (مقابلہ کریں حضرت متی 15باب 28آیت ،حضرت لوقا 18باب 8آیت)۔

آیت نمبر ۱۱۔اور میں تم سے کہہ دیتا ہوں کہ بہتیرے پورب اور پچھم سے آکر ابراہیم ،اضحاق اور یعقوب کے ساتھ آسمان کی بادشاہت میں کھانے بیٹھیں گے ۔

یہ الفاظ جو حضرت متی کی 11اور 12آیت میں درج ہیں حضرت لوقا اس معجزے کے ساتھ درج نہیں کرتے بلکہ ایک اورجگہ بیان کرتے ہیں(حضرت لوقا 13باب 28آیت)ممکن ہے کہ اس جگہ بھی اور لوقا 13باب 28آیت کے موقع پر بھی مسیح نے یہ الفاظ کہے ہوں۔

اب وہ یہودیوں کو وہ بات سناتے ہیں جو وہ سننا پسند نہیں کرتے تھے ۔پورب اورپچھم سے (دیکھئیے بائبل مقدس صحیفہ حضرت یسعیاہ 45باب 6آیت)یعنی دنیا کےدور درا ز کناروں سے دور دور کے ممالک سے آئیں گے اور آسمان کی بادشاہت میں داخل ہوں گے یہاں اس بات کا صاف اشارہ ہے کہ مسیحیت تمام قوموں میں پھیل جائے گی۔

ابراہیم ،اضحاق اور یعقوب کے ساتھ ۔ یہودی یہ مانتے تھے کہ ان بزرگوں کی اولاد سے ہونا مسیح کی بادشاہت کی خوبیوں میں داخل ہونے کی پختہ دلیل ہے۔ اور مسیح کی بادشاہت کی خوبیوں میں سے ایک یہ بات سمجھی جاتی تھی کہ اس میں اعلیٰ درجہ کی ضیافتیں ہوا کریں گی جن میں یہ بزرگ شامل ہوں گے ۔ ربیو ں کے تحریروں سے یہ بات بخوبی ظاہر ہے ۔(این امریکن کامنٹری)یہودی غیر قوموں کے ساتھ کھانے سے پرہیز کیا کرتے تھے۔ اورجنابِ مسیح فرماتے ہیں کہ یہی غیر قوم بزرگوں کے ساتھ کھانے بیٹھیں گے  وہ ہر طرف سے آئیں گے۔ اور یہودی خارج کئے جائیں گے ۔ اسی بات پر نبیوں نے بھی اشارہ کیا تھا مگر اسرائیل نے ان کا مطلب نہ سمجھا۔

آسمان کی بادشاہت ۔صرف حضرت متی ہی الفاظ"آسمان کی بادشاہت "استعمال کرتے ہیں دیگر انجیل نویس یہ محاورہ استعمال نہیں کرتے بلکہ خدا کی بادشاہت  کہتے ہیں۔ لیکن حضرت متی  خدا کی بادشاہت کی محاورہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ محاورہ نیا نہ تھا بلکہ اس کا تصور یہودی تھیوکرسی سے مربوط تھا۔ تھیو کرسی کے معنی خدا کی بادشاہت یا حکومت کے ہیں۔ اور زمین کی بادشاہت اس کا ایک سایہ سا ہے ۔ یہ الفاظ مسیح کی حکمرانی پر دلالت کرتے ہیں (بائبل مقدس صحیفہ حضرت دانی ایل 7باب 14آیت)مسیح نے ان الفاظ کو ایک نئے اور گہرے معنے دیدئیے۔ (کیمبرج سیریز متی)حضرت متی 30مرتبہ سے زيادہ ان الفاظ کو استعمال کرتے ہیں ۔ واضح ہو کہ "آسمان کی بادشاہت "اور خدا کی بادشاہت میں کچھ فرق نہیں ہے۔ آسمان جو کہ خدا کے رہنے کی جگہ ہے بعض اوقات خدا کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔(دانی ایل 4باب 26آیت ،حضرت لوقا 15باب 18تا 21آیت)یہودی لوگ  جو کہ خدا کا نام لینے میں پس وپیش کیا کرتے تھے۔اکثر اوقات "آسمان کی بادشاہت "کا محاورہ استعمال کیا گیا ہے ۔ حضرت متی جو یہودیوں کے لکھتے ہیں ان کے خیالات کی رعائت کرتے ہیں اور زیادہ تر خدا کی بادشاہت  کی جگہ "آسمان کی بادشاہت " کہتے ہیں۔ لفظ آسمان یونانی میں بصیغہ  جمع آیا ہے۔

"آسمان کی بادشاہت "کا خیال نبیوں کی کتابوں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ مثلاً یسعیاہ اور میکاہ  میں اس بات کی خبر ہے کہ خدا ایک راستباز بادشاہ کو برپا کرے گا جو اپنے لوگوں کونجات  دے گا اقبال مندی سے بہرور فرمائے گا(صحیفہ حضرت یسعیاہ 1باب 39آیت ،9باب 6تا 7آیت ،11باب 1تا 10آیت ،صحفیہ حضرت میکاہ 4باب 1تا 8آیت ) اس امید کو حضرت یرمیاہ اور ان کے ہمعصروں نے کسی قدر تبدیلی سے بیان کیا ہے۔(حضرت یرمیاہ  23باب 5تا 6آیت ،حضرت حزقی ایل 37باب 24)یعنی انہوں نے حضرت داؤد کے خاندان کی طرف (مقابلہ کرو 2تواریخ 13باب 8آیت)اس طرح اشارہ کیا ہے کہ وہ چنی ہوئی قوم کے کام کی رہنمائی کرے گا۔ لیکن دانی ایل کے زمانہ میں جب کہ اسرائیل ردی حالت میں گرفتار تھا۔ یہ یقین دلایا گیا کہ"آسمان کا خدا " ایک عالمگیر بادشاہی قائم کرے گا۔

آیت نمبر ۱۲۔مگر بادشاہت کے بیٹے باہر اندھیرے میں ڈالے جائیں گے وہاں رونا اور دانتوں کا پیسنا ہوگا ۔

بادشاہت کے بیٹے۔عبرانی محاورہ کے مطابق فرزند یا بیٹے ایک گہرا تعلق یا رشتہ ظاہر ہوتا ہے۔ مثلا ً بنی بلعال سے مراد شرارت کے فرزند ہیں یعنی لوگ جو گویا شرارت سے پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی خاصیت شرارت کے چشمہ سے اخذ کی تھی۔ اسی طرح نافرمانی کے فرزند (خط افسیوں 2باب2آیت)غضب کے فرزند (خط افسیوں 2باب 3آیت) "بادشاہت کے بیٹے یا فرزند "ایسا محاورہ ہے جس سے مسیح یہودیوں کو فرماتے ہیں کہ وہ جو اجنبی  ہیں وہ بادشاہت کی نعتموں سے متمع ہونگے ۔ مگر اس کے اپنے فرزند خارج کئے جائیں گے۔مراد یہودیوں سے ہے ۔

باہر کے اندھیرے میں ڈالے جائیں گے۔ یہ کلام اس نقشہ سے استعارہ کیا گیا ہے ۔ جہاں ایک مکان چراغوں کی روشنی سے بقعہ نور ہورہا ہے۔ لیکن اس کے باہر تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ اگر کوئی شخص اس محل سے نکالا جائے تو وہ اندرونی روشنی کے مقابلہ میں بیرونی تاریکی کی کثرت کو وبال جان سمجھے گا ۔(دیکھئے حضرت متی 22باب 13آیت ،15باب 30آیت ،خط یہوداہ اور خط دوم حضرت پطرس 2باب 17آیت) میں تاریکی کی سیاہی "آیا ہے )۔

وہاں رونا اور دانتوں کا پیسنا ہوگا۔ محل کے اندر ضیافت کے سامان اور خوش گلو کو گوں کی مداح سرائی کے خوش لحن گیت اپنا لطب دے رہے ہیں۔ لیکن باہر رونا اور دانت پیسنا گلے کا ہار بن رہا ہے۔ یہ محاورہ چھہ مرتبہ حضرت متی میں آیا ہے ۔(حضرت متی 13باب 42آیت ،22باب 13آیت ،24باب 51آیت 25باب 30آیت ) اور حضرت لوقا میں بھی پایا جاتا ہے (حضرت لوقا 13باب 28آیت )او رہمیشہ حرف تعریف کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ پس ہمیشہ آنے والی سزا پر دلالت کرتا ہے (امریکن کامنٹری متی پر )

آیت نمبر ۱۳۔اور جنابِ مسیح نے صوبہ دار سے کہا جیسا تو نے اعتقاد کیا تیرے لئے ویسا ہی ہو۔ اور اسی گھڑی خادم نے شفا پائی۔

کہا جا۔ نہائت محبت اور دلاسے سےکہا جا۔ نہ کہ درشتی اور سختی سے ۔جیسا تیرا ایمان بڑا ہے ویسی ہے بڑی برکت بھی تجھے ملے۔

اسی گھڑی ۔ اس پر زور ہے۔ فوراً اسی دم ۔

نصیحتیں اور مفید اشارے

1۔صوبہ دار ۔اس کی سخاوت خدا کے لوگوں پر (حضرت لوقا 7باب5آیت)اس کی محبت بھری مہربانی ایک نوکر پر (حضرت متی 8باب 6آیت ،حضرت لوقا 7باب 2آیت )اپنی نسبت اس کی نہائت فروتن رائے۔ (حضرت متی 8باب 8آیت )اس کا مسیح پر مضبوط ایمان رکھنا (حضرت متی 8باب 8تا 10آیت )اس کی درخواست کا ٹھیک مسیح کی مرضی کے مطابق ہونا اور اس کا علے الفور جواب ملنا۔(حضرت متی 8باب 13آیت)۔

2۔خوں ریز لڑائیوں کے پیشواؤں نے بھی بڑی بڑی نذریں مسیح کو چڑھائی ہیں۔ مثلاً یہ صوبہ دار ،قرینیلس اور وہ صوبہ دار جو مسیح کی صلیب کا اہتمام رکھتا تھا۔ (حضرت متی 27باب 54آیت ) اس کے مطیع تھے۔

3۔جو اپنے نوکروں کی خدمت کرنا نہیں جانتا وہ اس لائق نہیں کہ اس کی خدمت کی جائےبڑائی کا خیال غرور پیدا نہ کرنے پائے۔ چاہیے کہ ہم نوکروں پر جب نگاہ کریں تو اس وقت۔ یہ یاد رکھیں کہ ہمیں اپنے مالک مسیح پر بھی ایک دن نظر ڈالنا ہے۔ کوئی نوکر شائد اپنے مالک کی بھی اتنی پرواہ نہ کرتا جتنی اس آقا نے اپنے خادم کی کی۔

4۔جو اپنے تیئں ہیچ سمجھتے ہیں وہی اوروں سے حقیقی عزت پاتے ہیں۔ اور جو اوروں سے عزت پاتے ہیں وہی اپنے تیئں نالائق جانتے ہیں۔ نہ اس لئے کہ وہ اپنی لیاقتوں اور خوبیوں سے واقف نہیں ہوتے۔ بلکہ اس لئے کہ وہ زیادہ تر نالائقیوں کو دیکھتے ہیں۔ مذہب میں پہلی شے کیا ہے؟فروتنی ۔دوسری شے کیا ہے ؟فروتنی ،تیسری شئے کیا ہے فروتنی۔

5اگر چہ یہ شخص بڑا اعلے مرتبے والا اور عالیجاہ تھا۔ مگر جب اس نے مسیح کی عظمت اور خوبی دیکھا اور اپنےناچیز پن کو پہچانا توکہا کہ میں "اس لائق نہیں"پہلے مسیح کو دیکھو اور پھر اپنے آپ کو دیکھو اور تو تم بھی یہی کہوگے۔ صوبہ دار کا یہ کہنا گویا سب چیزوں کے لائق ہونے کا ثبوت تھا۔

6۔حکومت اور تابعداری دست بدست چلتی ہیں۔ کاش کو ہم بھی اپنے آقا ومولا سیدنا مسیح کے ایسے ہی نوکر ہوں۔ مگر ہماری حالت دگر گوں ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دنیا کو چھوڑ و۔ ہم دنیا کی طرف بھاگتے ہیں۔ وہ کہتا ہے میری طرف آؤہم اس سے بھاگتے ہیں۔

مسیح کئی لوگوں کے گھروں میں جا کر بیٹھے مثلاایک مغرور فریسی کے گھر میں گئے۔ مگر اس کا اس کا دل اس کی حضوری سے خالی رہا لیکن اس صوبہ دار کے دل میں اس نے سکونت اختیار کی حالانکہ اس نے اسے اپنے گھر آنے سے روکا۔

7۔آسمانی برکت ابراہیم ،اضحاق اور یعقوب کا فرزند ہونے پر منحصر نہیں کیونکہ میراث مورثی نہیں۔ بلکہ ایمان پر مبنی ہے۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا, معجزات المسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (19807)
Comment function is not open