en-USur-PK
  |  
Category
04

ایک بہرے اور ہکلے کو شفا بخشنا

posted on
ایک بہرے اور ہکلے کو شفا بخشنا

 THE MIRACLES OF CHRIST

معجزاتِ مسیح

24-Miracle   

Jesus Heals a Deaf and Dumb Man 

Mark 7:31-37

 

ایک بہرے اور ہکلے کو شفا بخشنا

۲۴ ۔معجزہ

انجیل شریف بہ مطابق حضرت مرقس ۷باب ۳۱تا۳۷

مرحوم علامہ طالب الدین صاحب بی ۔ اے

؁ ۱۹۰۵ء

حضرت متی عام طور پر ہمیں بتاتے ہیں کہ مسیح جب صور وصیدا کے حدود سے لوٹ آئے تو ایک بڑی بھیڑ لنگڑوں اندھوں گونگوں اور بہت سے اور بیماروں کو اپنے ساتھ لے کر آپ کے پاس آئی اور انہیں آپ کے پاؤں میں ڈال دیا (حضرت متی 15باب 30آیت)۔لیکن حضرت مرقس ان میں سے ایک بہرےاور ہکلے کو چن لیتے اور اس کا حال بیان کرتے ہیں۔ شائد اس لئے کہ اس شخص کے حالات اور بیماروں کی نسبت کسی قدر زیادہ رقم کرنے کے لائق سمجھتے ہیں ۔

آیت نمبر ۳۲۔لوگوں نے ایک بہرے کو جو ہکلا بھی تھا آپ کے پاس لا کر آ پ کی منت کی کہ اپنا ہاتھ اس پر رکھیں۔

ا س شخص کی قوت سمع جاتی رہی تھی اور زبان میں کچھ ایسا نقص آگیا تھا کہ وہ اپنے خیالات اچھی طرح الفاظ میں اد ا نہیں کرسکتا تھا۔ لوگ اسے مسیح کے پاس لا کر آپ کی مند کرتے ہیں کہ "اپنا ہاتھ اس پر رکھ" اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ مسیح کوئی اسباب یا وسائل استعمال نہیں کرتے بلکہ اس کے چھونے میں اس کے مس میں ایسی قدرت ہے کہ بیمار اچھا ہوجاتاہے۔ لیکن ہمارے آقا ومولا سیدنا مسیح وہ طریقہ استعمال نہیں کرتے جو یہ لوگ بتاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ اس پر اپنا ہاتھ رکھے۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرتے ۔

حضرت متی 9باب 32آیت میں جس گونگے کاذکر ہے وہ اور آدمی تھا۔ اس کی بیماری بدروح کی وجہ سے تھی لیکن اس شخص کی بیماری کی کوئی روحانی وجہ نہیں بتائی جاتی ہے اور نہ ہم کو اختیار ہے کہ ہم یہ کہیں کہ یہ شخص بھی کسی بدروح کے سبب بیمار ہوا تھا۔

آیت نمبر ۳۳۔آپ اس کو بھیڑ میں سے الگ لے گئے۔ اور اپنی انگلیاں اس کے کانوں میں ڈالیں اور تھوک کر اس کی زبان چھوئی۔

اس بات کا ذکر ہم پہلے کرچکےہیں کہ جنابِ مسیح مریضوں کو شفا دیتے وقت مختلف قسم کے طریقے استعمال کیا کرتے تھے اور کہ ان متفاوت طریقوں میں مسیح کی عجیب حکمت اور گہرے مطالب نہاں ہیں۔ جس طرح وہ انسان کی حالت سے واقف تھا اگر اسی طرح ہم بھی اس کی روحانی حالت اور خاص کیفیتوں سے واقف ہوتے تو ہم بھی جانتے کہ وہ کیوں ایک شخص کو بھیڑ کے درمیان شفا بخشتے تھے اور دوسرے کو بھیڑ سے دور بلکہ شہر سے باہر لے جاکر شفا بخشتے تھے؟کیو ں ایک آدمی فی الفور اور کامل طور پر شفا پا جاتا تھا اور دوسرے شخص کچھ دیر کے بعد شفا پاتے تھے ؟مثلا جیسے وہ اندھا جس کی آنکھیں رفتہ رفتہ روشن ہوئیں۔ جس نے پہلے لوگوں کو درختوں کی طرح چلتے دیکھا ۔ہمیں ان  باتوں کو دیکھ کر یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہئیے کہ یہ مختلف طریقے ہمارے مولا کی قدرت کا نقص ظاہر کرتے ہیں ۔ بلکہ یہ خیال کرنا چاہئیے کہ ان گونا گوں طریقوں کے استعمال کا باعث شفا پانے والے کی باطنی اور روحانی حالت پر منحصر تھا۔ گوہم اپنی محدود نظر کے سبب یہ نہیں جانتے کہ وہ کیا حکمت تھی جس کے سبب آپ نے یہ طرح طرح کے طریقے استعمال کئے ۔

اس موقعہ پر آپ اسے جو اچھا ہونے کے لئے آیا تھا بھیڑ سے الگ لے گئے۔ حضرت متی 8باب 23آیت میں آپ ایک اندھے کو شہر سے باہر لے گئے۔ اب سوال برپا ہوتا ہے کہ آپ اسے الگ کیوں لے گئے بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ اس لئے باہر لے گئے کہ وہ اپنی قدرت کی نمائش اور دکھاوے کو پسند نہیں کرتے تھے پر اس کے جواب یہ کہا جاتا ہے کہ تمام معجزات میں صرف دو ایسے ہیں جن میں بیمار کو علیحدہ لے جانے کا ذکر پایا جاتاہے ۔ ان کے سوائے اور کسی میں اسی قسم کی علیحدگی اختیار نہیں کی گئی۔ پس کیا باقی معجزوں میں آپ کو یہ شوق دامنگیر تھا کہ آپ کی بڑائی ہو۔ بعض کا خیال ہے کہ آپ اس واسطے علیحدہ لے گئے کہ وہاں جاکر آزادگی سے دعا مانگ سکے ۔ پر اس پر یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ کئی معجزوں کے موقعہ پر کوئی خفیہ اور خلوتی دعا آپ نے نہیں مانگی ۔اور نہ مانگنے کی ضرورت تھی کیونکہ آپ کا دل ہر دم دعا سے پر تھا۔

ایک یہ خیال ہے کہ آپ اس کو واسطے الگ لے گئے کہ آپ نے دیکھا کہ یہ شخص بھیڑ کے شور وغوغا سے علیحدہ ہوکر اس تاثیر کو شافی مطلق سے نکلنے کو تھی قبول کرسکے گا۔ اور جیسا کہ وہ کیا کرتا ہے۔ یعنی جس روح کو شفا دینا چاہتے ہیں اسے اکثر بیماری کے بستر پر علیحدہ لے جاتا ہے یا عزیزوں کی مفارقت کے سبب تنہائی میں پہنچاتا ہے تاکہ دنیا کے شور وغل سے کچھ عرصہ علیحدہ ہوکر اس کی آواز کو صاف صاف طور سنے اور اسکی روح کی تاثیر وں کو قبول کرے ۔ ٹرنچ

ایک اور خیال یہ ہے کہ وہ اس وقت دکپلس کے شہروں میں تھا اور وہ پورے پورے طور پر یہودی ملک میں داخل نہ تھے لہذا وہ اپنے تیئں مشہور نہیں کرنا چاہتا ۔ کیونکہ اگر کرتا تو سب غیر قوم جمع ہوجاتے اور اس بات سے یہودیوں کا حسد اور مخالفت بڑھ جاتی (لینگی تفسیر حضرت مرقس )ہمیں اس سے پہلا خیال بہتر معلوم ہوتا ہے۔

اپنی انگلیاں اس کے کانوں میں ڈالیں اور تھوک کر اس کی زبان چھوئی ۔ ان وسائل کے استعمال سے اس نے اس شخص کے دل میں جو سوائے دیکھنے اور چھونے کے باقی سب حواس کھو بیٹھا تھا یہ امید وار ایمان پیدا کیا وہ شفا بخش سکتا ہے ۔ پہلے اس کے کان میں انگلیاں ڈالیں کیونکہ قوت سمع کے کھوئے جانے سے وہ سن نہیں سکتا تھا اور غالباً اسی سبب سے طاقت گویائی میں بھی نقص آگیا تھا لہذا اس نے پہلے ا سکے کان کھولے اور اس کے لئے اپنی انگلیاں اس کے کانوں میں ڈالیں اور یہ فعل اس بات کی علامت تھا کہ وہ تمام رکاوٹیں جو آواز کو اس کے کانوں کے پردے تک پہنچنے نہیں دیتی تھیں دور کردی گئیں ہیں۔ او رپھر اس نے اپنے تھوک سے اس کی زبان کو چھوا اور یہ فعل ظاہر کرتا ہے تھا کہ گفتار کی قوت بھی اس کو دی گئی ہے۔

آیت نمبر ۳۴۔اور آسمان کی طرف نظر کرکے ایک آہ بھری اور اس سے کہا "افتح " یعنی کھل جا۔

یہ حضرت مرقس کا معمول ہے کہ آنخدواوند کی چھوٹی چھوٹی باتوں اور حرکتوں کو بڑی خوب صورتی اور رنگینی سے بیان کرتے ہیں۔ اس آیت میں اس کے آہ بھرنے کا ذکر ہے جس کی نسبت بعض کی رائے ہے کہ اس کا آسمان کی طرف نظر کرکے آہ بھرنا اس کے دعا مانگنے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ (1)آپ اس وقت ایک ایسے ملک میں تھے جو آدھا بت پرست تھا لہذا وہاں بیمار کو شفا بخشنا ہمارے مولا کے لئے گویا ایک خاص قسم کی سخت مخالفت پر غالب آنا تھا۔ (2)اس لئے دعا کی کہ اس بت پرست ملک میں جادو گری مانی جاتی تھی ۔ اور وہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ میں اپنا کام پروردگار کی مدد سے کرتاہوں (حضرت متی 14باب 19آیت ،حضرت یوحنا 11باب 41تا42آیت )(3)کہ خداوند اس بہرے کو اپنے کلام سے کسی طرح موثر نہیں کرسکتا تھا۔ لہذا اس نے آہ کے وسیلے ایسا اشارہ کیا جسے وہ دیکھ سکتا تھا۔

بعض یہ کہتے ہیں کہ جس طرح آپ نے لعزر کے رشتہ داروں کے غم کو دیکھ کر آہ بھری (حضرت یوحنا  11باب 31آیت )کیونکہ آپ نے محسوس کیا کہ جو دکھ اس دنیا میں پایا جاتا ہے وہ گناہ کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح اس شخص کو دیکھ کر ہمدردی کی آہ بھری ۔ افتح ارامی فعل ہے اور امر واحد حاضر کا صیغہ ۔ یہ لفظ خاص اسی زبان کا لفظ ہے جو ہمارے مالک جناب مسیح بولا کرتے تھے ظاہر کرتاہے کہ لکھنے والے کو وہ لفظ یاد ہے جومسیح کی زبان مبارک  سے نکلے ۔ یا اس نے خود سنا اوریا (جیسا) اس حالت میں اغلب ہے )کسی سننے والے سے سنا۔

۳۵آیت ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ نے افتح کہا ۔ اسی وقت وہ رکاوٹیں دور ہوگئیں جن کے سبب شنید اور گویائی کے حواس بے کار ہوگئے تھے۔

آیت نمبر ۳۶۔اور آپ نے انہیں حکم دیاکہ کسی سے نہ کہنا ۔ لیکن جتنا آپ ان کو حکم دیتے رہے اتنا ہی زیادہ وہ چرچا کرتے رہے ۔

معلوم ہوتا ہے کہ جب مسیح اس مریض کو بھیڑ سے علیحدہ لے گئے اس وقت کئی لوگ آپ کےساتھ گئے جنہوں نے اس ماجرے کو بچشم خود یکھا۔ جنابِ مسیح ان لوگوں کو اوراس شفایافتہ بہرے کو حکم دیتے ہیں کہ وہ اس کا چرچا نہ کریں۔ ہم اس سے پہلے ان اسباب کا ذکر کرچکے ہیں جن کی وجہ سے وہ خاموشی طلب کیا کرتے تھے اور نیز یہ بھی بتاچکے ہیں کہ اس خصوص میں نافرمانی سے کیا نقصان برآمد ہوئے ۔ لہذا یہاں ان باتوں کو دہرانا ضروری نہیں۔

آیت نمبر ۳۷۔اور انہوں نے نہائت ہی حیران ہوکر کہا جو کچھ آپ نے کیا سب اچھا کیا۔ وہ بہروں کو سننے اور گونگوں کو بولنے کی طاقت دیتے ہیں۔

جو کچھ آپ نے کیا سب اچھا کیا۔ یہ الفاظ پیدائش 1باب 31آیت کے الفاظ یاد دلاتے ہیں ۔ اور ان کو یاد کرنا نازیبانہیں کیونکہ مسیح کا کام بھی ایک قسم کی خالقیت کا کام ہے۔

حضرت متی جو اس واقعہ کے متعلق عام طور پر اس بات کاذکر کرتے ہیں کہ لوگ طرح طرح کے بیماروں کو مسیح کے پاس لائے ۔ اپنے بیان کے آخر میں کہتے ہیں کہ انہوں نے "اسرائیل کے خدا کی بڑائی کی " جیسا اوپر بتایا گیا یہ جگہ قریباً بت پرستی کے پنجہ میں گرفتار تھی لہذا یہ تعریف کے کلمات یہ مطلب رکھتے ہیں۔ کہ ان بت پرستوں نے ان معجزات کو دیکھ کر اسرائیل کے خدا کی بڑائی کی یعنی یہ تسلیم کیاکہ اسرائیل کے خدا سے بڑا اور کوئی معبود نہیں۔

نصیتحیں اور مفید اشارے

ہم اس معجزے سے کیا سیکھتے ہیں ۔(1)کہ اس مریض کے حواس ناقص تھے۔ سننے اور بولنے کی طاقتیں زائل ہوگئی تھیں۔ یہی حال روحانی طور پر انسان کا ہے۔ اس کےدوست اسے مسیح کے پاس لائے ۔ ہم بھی اپنے دوستوں کو اس کے پا س لائیں۔ جس طرح مسیح نے اس کے کانوں کو اپنی انگلیوں سے اور اس کی زبان کو تھوک سےچھوا۔ اسی طرح اب بھی وہ ہم کو اپنے دست قدرت سے چھوتے اور اپنی قدرت سےہمارے نقصوں کو دور کرتےہیں ۔ ان کا آسمان کی طرف آہ بھرنا آپ کی ہمدردی اور دعا پر دلالت کرتا ہے ۔ او رہم جانتے ہیں کہ وہ ہمدرد سردار کا ہن جو آسمان میں ہماری سفارش کرتے ہیں اب بھی ہمارے ساتھ ہمدردی کرتے اور ہمارے لئے دعا مانگتے ہیں۔ آپ کامنع کرنا بھی مطلب رکھتا ہے۔ وہ ہمیں سیکھاتے ہیں کہ ہم اپنی رہائی اور صحت کی خبر غرور اور شیخی سے  نہ دیں۔ بلکہ ایسی صورت میں کہ خداوند کی مخالفت برپا نہ ہو بلکہ آپ کی انجیل کے لئے راہ تیار کی جائے ۔ لوگ معجزہ دیکھ کر خدا کی تعریف کرتے ہیں یہ بات بھی ہم کو ایک سبق دیتی ہے کہ اور وہ یہ ہے کہ ہم خدا کی برکتیں پاکر اپنے خدا کا جلال ظاہرکریں۔ وہی زبان جو کھولی گئی ہے ایسی تعریف کرے جس سے یہ ظاہر ہو کہ ہمارے مولا کے برابر اور کوئی معبود نہیں ہے ۔

2۔جب ہم بہروں اور گونگوں کو دیکھیں تو لازم ہے کہ ہم اپنے حواس کے لئے خدا کا شکر بجا لائیں اور پاک پروردگار کے لئے استعمال کریں۔ 

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا, معجزات المسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (16167)
Comment function is not open